أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
یہ روزے گنتی کے چند ایام ہیں، اگر تم میں سے کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو اتنے دن گن کر بعد میں روزہ رکھ لے، اور جنہیں روزے رکھنے میں مشقت اٹھانی پڑتی ہو، وہ بطور فدیہ ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، اور جو کوئی اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرنا چاہے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے، اور (مشقت برداشت کرتے ہوئے) روزہ رکھ لینا تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم علم رکھتے ہو
چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اہل ایمان پر روزے فرض کردیئے، اس لیے یہ بھی واضح کردیا جکہ یہ گنتی کے چند روزے ہیں۔ سہولت کی خاطر ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور سہولت عطا کردی، چنانچہ فرمایا : ﴿ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍ اُخَرَ ۭ ﴾” پس جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرلے۔“ چونکہ غالب طور پر مریض کو اور مسافر کو دوران سفر مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو روزہ چھوڑنے کی رخصت عطا کردی ہے۔ چونکہ روزے کی منفعت و مصلحت کا حصول ہر ممکن کا مطلوب و مقصود ہے۔ اس لیے مریض اور مسافر کو حکم دیا کہ جب مرض جاتا رہے اور سفر ختم ہوجائے اور انسان کو راحت حاصل ہوجائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍ اُخَرَ ۭ ﴾میں اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان کے دنوں کی گنتی کی قضا دی جائے خواہ رمضان پورا ہو یا ناقص۔ نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ گرمیوں کے طویل دنوں کی قضا سردیوں کے چھوٹے دنوں میں دی جاسکتی ہے اور اس کے برعکس چھوٹے دنوں کی قضا بڑے دنوں میں دی جاسکتی ہے۔ ﴿ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ ﴾” اور ان لوگوں پر جو اس کی طاقت رکھتے ہوں۔“ یعنی جو روزے رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ روزہ نہ رکھیں، تو وہ ﴿فِدْيَةٌ﴾ فدیہ دیں ﴿ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ۭ﴾” ایک مسکین کا کھانا۔“ یعنی ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ یہ حکم روزوں کے فرض ہونے کی ابتدا میں تھا چونکہ انہیں روزے رکھنے کی عادت نہیں تھی اور روزے ان پر فرض تھے، تاہم اس میں ان کے لیے مشقت تھی، اس لیے رب حکیم نے نہایت آسان طریقے کے ساتھ انہیں اس راستے پر لگایا اور روزے کی طاقت رکھنے والے کو اللہ نے اختیار دے دیا کہ چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ مگر روزہ رکھنا افضل ہے۔ اسی لیے فرمایا : ﴿ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ﴾” اگر تم روزہ رکھو تو تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر اس مسلمان پر روزہ رکھنا فرض کردیا جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور طاقت نہ رکھنے والے شخص کو روز چھوڑنے اور دوسرے دنوں میں اس کی قضا دینے کی رخصت دے دی اور بعض کہتے ہیں کہ ﴿ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ ﴾کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو بہت تکلیف سے روزہ رکھتے ہیں۔ یعنی وہ روزے کی مشقت کے متحمل نہیں، جیسے بہت بوڑھا وغیرہ تو وہ روزہ کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے اور یہی مسلک صحیح ہے۔