ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ
یہ (عذاب انہیں) اس لیے دیا جائے گا کہ اللہ نے سچی کتاب (254) اتاری ہے (اور انہوں نے اسے چھپا دیا) اور جو لوگ اس کتاب میں اختلاف کرتے ہیں، وہ بڑی مخالفت و عداوت میں پڑگئے ہیں۔
﴿ ذٰلِكَ﴾ یعنی یہ اللہ کا عدل و انصاف پر مبنی بدلہ اور اس کا اسباب ہدایت سے انہیں محروم رکھنا، جنہوں نے انہیں اختیار کرنے سے انکار کیا اور ان کے سوا دوسرے اسباب اختیار کیے۔ ﴿ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَـقِّ ۭ ﴾” اس لیے ہے کہ اللہ نے کتاب کو حق کے ساتھ اتارا‘‘ اور حق میں سے ہی یہ بات بھی ہے کہ نیک کام کرنے والے کو اس کی نیکیوں کا اور برا کام کرنے والے کو اس کی برائیوں کا بدلہ دیا جائے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بِالْحَـقِّ ۭ﴾ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید مخلوق کی ہدایت، باطل میں سے حق کو اور گمراہی میں سے ہدایت کو واضح کرنے کے لیے نازل فرمایا ہے، اس لیے جس نے اس کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا دیا، وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے اس کی پاداش میں بڑی سے بڑی سزا دی جائے۔ فرمایا : ﴿ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْکِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍۢ بَعِیْدٍ﴾ ” جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا وہ دور کی دشمنی میں ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جنہوں نے کتاب اللہ کے بارے میں اختلاف کیا اور اس کے کسی حصے پر ایمان لائے اور کسی حصے کا انکار کیا اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی مراد اور اپنی خواہشات کے مطابق اس میں تحریف کی اور اس کے اصل معانی سے ہٹا دیا ﴿ لَفِیْ شِقَاقٍۢ﴾یعنی وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں ﴿ بَعِیْدٍ ﴾جو حق سے بہت دور ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے کتاب اللہ کی مخالفت کی، جو حق لے کر آیا ہے جو اتفاق اور عدم تناقض کا موجب ہے۔ پس ان کا معاملہ خراب ہوگیا، ان کی مخالفت اور دشمنی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں ان میں افتراق پیدا ہوگیا۔ اس کے برعکس وہ اہل کتاب جو کتاب اللہ پر ایمان لائے اور تمام معاملات میں اسے حکم تسلیم کیا، پس ان میں اتفاق ہوگیا اور یہ لوگ محبت اور کتاب اللہ پر اجتماع کی وجہ سے بلندیوں پر پہنچ گئے۔ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے لیے جو اس چیز کو چھپاتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور کتاب اللہ پر دنیا کو ترجیح دیتے ہیں، سخت ناراضی اور عذاب کی وعید کو متضمن ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق اور مغفرت کے ذریعے سے پاک نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا ہے جو ان کے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دینے کا باعث بنا اور اس پر یہ امر مترتب ہوا کہ انہوں نے مغفرت کو چھوڑ کر عذاب کو اختیار کرلیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس امر پر دکھ کا اظہار کیا کہ وہ جہنم کی آگ برداشت کرنے پر کس قدر صابر ہیں؟ جس میں وہ ان اسباب کی بنا پر داخل ہوئے جن کے بارے میں انہیں خوب علم تھا کہ یہ جہنم میں لے جاتے ہیں۔ یہ آیت اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کتاب اللہ تمام تر حق پر مشتمل ہے جو اتفاق اور عدم افتراق کا موجب ہے، نیز ہر وہ شخص جو کتاب اللہ کی مخالفت کرتا ہے وہ حق سے بہت دور ہے اور وہ نزاع اور مخاصمت میں مبتلا ہے۔ واللہ اعلم۔