قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
ان کے رسولوں نے کہا، کیا تمہیں اللہ کے بارے میں شبہ (١٠) ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، وہ تمہیں اپنی طرف اس لیے بلاتا ہے تاکہ تمہارے گناہوں کو معاف کردے اور ایک وقت مقرر تک تمہیں مہلت دے، انہوں نے کہا کہ تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو، چاہتے ہو کہ ہمیں ان معبودوں سے روک دو جن کی ہمارے آبا و اجداد عبادت کرتے تھے، اس لیے تم ہمارے سامنے (اپنی صداقت) کی کوئی دلیل پیش کرو۔
اس بارے میں انہوں نے یقیناً جھوٹ کہا تھا اور ظلم کیا تھا۔ اسی لئے ﴿قَالَتْ رُسُلُهُمْ ﴾ ” ان کے رسولوں نے (ان سے) کہا‘‘: ﴿أَفِي اللَّـهِ شَكٌّ﴾ ” کیا اللہ کے بارے میں بھی شک ہے؟“ ﴿فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” جو آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔“ یعنی جس کے وجود پر تمام اشیاء کے وجود کا دار و مدار ہے۔ تو اس کے پاس کوئی مضبوط دلیل نہیں جو معلوم ہو، حتیٰ کہ امور محسوسہ بھی اس کی تائید نہیں کرتے۔ اس لئے انبیاء و مرسلین نے ان کو اس طرح خطاب فرمایا ہے کہ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ﴿يَدْعُوكُمْ﴾ ” وہ تمہیں بلاتا ہے“ یعنی وہ تمہیں تمہارے فائدے کے امور اور تمہارے مصالح کی طرف بلاتا ہے ﴿لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ ” تاکہ تمہارے گناہ بخشے اور فائدہ پہنچانے کے لئے ایک مدت مقرر تک تم کو مہلت دے۔“ یعنی تمہیں رسول کی دعوت پر لبیک کہنے کے اجر میں دنیاوی اور اخروی ثواب عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس لئے دعوت نہیں دی کہ تمہاری عبادت سے مستفید ہو بلکہ تمہاری عبادت کا فائدہ تمہاری ہی طرف لوٹے گا۔ انہوں نے اپنے رسولوں کی دعوت کو اس طرح ٹھکرا دیا جیسے جاہل اور بے وقوف لوگ ٹھکراتے ہیں ﴿قَالُوا ﴾ انہوں نے اپنے رسولوں سے کہا ﴿ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا﴾ ” تم تو ہم جیسے انسان ہی ہو“ یعنی تمہیں ہم پر نبوت اور رسالت کی بنا پر کیسے فضیلت حاصل ہے؟ ﴿ تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا ﴾ ” تم چاہتے ہو کہ تم ہمیں ان چیزوں سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے“ تب ہم تمہاری سکتے ہیں جب کہ تم ہماری ہی طرف انسان ہو؟ ﴿فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴾ ”پس ہمارے پاس کوئی کھلی دلیل لاؤ۔“ یعنی واضح دلیل اور حجت پیش کرو اور دلیل سے ان کی مراد وہ آیت اور معین معجزہ تھا جس کا وہ مطالبہ کرتے تھے، حالانکہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ ان کے رسول ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے۔