لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
یقینا ان قوموں کے واقعات میں عقل والوں کے لیے بڑی عبرت تھی (٩٨) یہ قرآن کوئی ایسا کلام نہیں ہے جسے کسی نے گھڑ لیا ہے، یہ تو آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، جو پہلے نازل ہوچکی ہیں اور اس میں ہر بات کی تفصیل ہے، اور یہ اہل ایمان کے لیے ذریعہ ہدایت اور باعث رحمت ہے۔
﴿لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ﴾ ” ان کے قصے میں“ یعنی انبیاء و رسل کے اپنی قوم کے ساتھ قصے میں ﴿عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ ” عقل والوں کے لئے عبرت ہے“ یعنی وہ اہل خیر اور اہل شر کے بارے میں عبرت لیتے ہیں۔ جو کوئی ان جیسے افعال کا ارتکاب کرے گا تو اپنے فعل کے مطابق کرامت یا اہانت کا مستحق ٹھہرے گا۔ وہ ان قصوں میں سے اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور اس کی عظیم حکمت کا استنباط کرتے ہیں۔ نیز وہ ان قصوں سے اس حقیقت کو اخذ کرتے ہیں کہ اللہ واحد کے سوا عبادت کسی کے لئے مناسب نہیں۔ ﴿مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ﴾ ” یہ ایسی بات نہیں جو بنا لی گئی ہو۔“ یعنی یہ قرآن جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہیں غیب کی خبروں سے آگاہ کرتا ہے، گھڑی ہوئی باتوں اور خود ساختہ کہانیوں پر مشتمل نہیں ہے۔ ﴿وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ﴾ ” بلکہ جو اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں ان کی تصدیق کرنے والا ہے۔“ بلکہ کتب سابقہ کی تصدیق، ان کی موافقت اور ان کی صحت کی شہادت پر مشتمل ہے۔ ﴿وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ﴾ ” اور ہر چیز کی تفصیل ہے“ بندے جن کے محتاط ہیں، مثلاً دین کے اصول و فروع اور دلائل و براہین۔ ﴿وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ ” اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے“ یعنی اس سبب سے کہ اس قرآن کے ذریعے سے انہیں جو حق کا علم حاصل ہوتا ہے اور وہ حق کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔ انہیں ہدایت حاصل ہوتی ہے اور انہیں جو دنیاوی یا اخروی ثواب حاصل ہوتا ہے اس کے ذریعے سے رحمت سے نوازے جاتے ہیں۔ ضمیمہ : اس عظیم قصہ میں بعض فوائد اور عبرتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن پر یہ مشتمل ہے۔ اس قصہ کی ابتداء میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ ﴾ ” ہم آپ پر بہترین قصہ بیان کرتے ہیں۔“ اور فرمایا ہے : ﴿لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِّلسَّائِلِينَ﴾ ” یوسف علیہ السلام اور اس کے بھائیوں (کے واقعے) میں، پوچھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔“ اور سورۃ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ﴾ ” ان کے واقعات میں عبرتیں ہیں۔“ یہ فوائد ان فوائد کے علاوہ ہیں جو (سورۃ کی تفسیر کے دوران)گزشتہ صفحات میں گزر چکے ہیں۔ (1) یہ قصہ سب سے اچھا، سب سے واضح اور سب سے صریح قصہ ہے، کیونکہ یہ مختلف انواع کے انتقالات پر مشتمل ہے، مثلاً ایک حال سے دوسرے حال میں، ایک امتحان سے دوسرے امتحان میں، امتحان سے اللہ تعالیٰ کی نوازشات میں، ذلت سے عزت میں، غلامی سے بادشاہی میں، تفرقہ و تشتت سے اجتماع و اتحاد میں، حزن و غم سے مسرت و سرور میں، فراخی سے قحط میں، قحط سے شادابی میں، تنگی سے وسعت میں اور انکار سے اقرار میں انتقال۔ پس نہایت بابرکت ہے اللہ تعالیٰ کی ذات جس نے یہ قصہ نہایت خوبصورت اور واضح اسلوب میں بیان کیا۔ (2)اس سورۃ مبارکہ میں خواب کی تعبیر کی اصل بیان کی گئی ہے، کیونکہ علم تعبیر اہم علوم میں شمار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے یہ عطا کرتا ہے۔ غالب طور پر علم تعبیر، نام اور صفات میں مناسبت اور مشابہت پر مبنی ہے، کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے خواب میں دیکھا تھا کہ سورج، چاند اور ستارے ان کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اس خواب میں مناسبت کا پہلو یہ ہے کہ روشنی کے تینوں ذرائع آسمان کی زینت اور اس کا حسن و جمال ہیں اور انہی پر اس کے فوائد کا دارومدار ہے۔ اسی طرح انبیاء اور علماء زمین کی زینت اور اس کا حسن و جمال ہیں۔ جیسے اندھیروں میں ستاروں سے راہ نمائی لی جاتی ہے، اسی طرح گمراہی کی تاریکیوں میں انبیاء اور علماء راہ دکھاتے ہیں۔ نیز حضرت یوسف علیہ السلام کے ماں اور باپ اصل ہیں اور ان کے بھائی فرع ہیں۔ پس مناسبت کا تقاضا یہ ہے کہ اصل، روشنی میں بھی اپنی فرع سے سب سے زیادہ بڑا ہو اور حجم کے اعتبار سے بھی عظیم تر۔ اس لئے سورج سے یوسف علیہ السلام کی ماں، چاند سے ان کے باپ اور ستاروں سے ان کے بھائی مراد ہیں اور ان میں مناسبت کا پہلو یہ ہے کہ الشمس ایک مونث لفظ ہے، لہٰذا اس کی مناسبت ماں سے ہے۔ القمر اور الکواکب مذکر ہیں اور اس لئے ان کی مناسبت باپ اور بھائیوں سے ہے۔ نیز اس خواب میں مناسبت کا پہلو یہ بھی ہے کہ سجدہ کرنے والا مسجودلہ، کے لئے معظم و محترم اور مسجود لہ معظم و محترم ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے ماں باپ اور بھائیوں کے نزدیک نہایت معظم اور محترم ہوں گے اور اس کا لازم یہ ہے کہ وہ علم اور دیگر فضائل کے اعتبار سے صاحب فضیلت اور چنے ہوئے شخص ہوں گے اس لئے ان کے والد نے کہا تھا : ﴿وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ﴾(یوسف علیہ السلام:12؍6) ” اور اسی طرح تیرا رب تجھے چن لے گا اور تجھے باتوں کی تعبیر کا علم سکھا دے گا۔ “ اور دونوں نوجوان قیدیوں کے خواب میں مناسبت یہ ہے کہ پہلے نوجوان نے خواب دیکھا کہ وہ شراب کشید کر رہا ہے اور وہ شخص جو شراب کشید کرتا ہو وہ عادتاً دوسروں کا خادم ہوتا ہے، شراب دوسروں کے لئے کشید کی جاتی ہے اس لئے یوسف علیہ السلامنے اس کی یہ تعبیر کی کہ وہ اپنے آقا کو شراب پلائے گا اور یہ چیز قید سے اس کی رہائی کو متضمن ہے۔ یوسف علیہ السلام نے دوسرے نوجوان کے خواب کی تعبیر، جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ اس نے اپنے سر پر روٹیاں اٹھا رکھی ہیں جنہیں پرندے کھا رہے ہیں، یہ کی کہ اس کے سر کی کھال، گوشت اور مغز وغیرہ جنہیں وہ اٹھائے ہوئے ہے، کھول کر ایسی جگہ پھینک دیا جائے گا جہاں گوشت خور پرندے اس کے سر کو نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ یوسف علیہ السلام نے اس کے احوال کو دیکھ کر اس کے خواب کی یہ تعبیر کی کہ اس کو قتل کردیا جائے گا اور قتل کرنے کے بعد اسے صلیب پر لٹکا دیا جائے گا۔ یہ سب تبھی ممکن ہے جب قتل کے بعد اسے صلیب پر چڑھایا گیا ہو۔ یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کے خواب، جس میں اس نے گائیں اور اناج کی بالیاں دیکھی تھیں، کی تعبیر شادابی اور قحط سالی سے کی۔ اس میں وجہ مناسبت یہ ہے کہ رعایا کے احوال اور اس کے مصالح کا دارو مدار بادشاہ پر ہوتا ہے اگر بادشاہ ٹھیک ہے تو رعایا بھی درست رہے گی اگر بادشاہ خراب ہے تو رعایا میں خرابیاں پیدا ہوجائیں گی۔ اسی طرح سال بہ سال حالات کے ساتھ رعایا کے احوال مربوط ہیں، رعایا کی درستی، ان کا معاشی استحاکم اور عدم استحکام کا دارومدار سال بہ سال (موسمی) حالات پر ہے۔ رہی گائیں تو ان کے ذریعے سے زمین میں ہل چلایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے آبپاشی کی جاتی ہے، اگر شادابی کا سال ہو تو گائیں موٹی تازی ہوجاتی ہیں اور اگر قحط سالی ہو تو گائیں دبلی اور لاغر ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح شادابی کے سالوں میں اناج کے خوشے سرسبز اور بکثرت ہوتے ہیں۔ جبکہ خشک سالی میں یہ خوشے بہت کم پیدا ہوتے ہیں اور سوکھ جاتے ہیں اور زمین کا بہترین اناج خوشوں سے ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ (3) یہ قصہ نبوت محمدی (صلوات اللہ وسلامه علی صاحبھا) کی صحت پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قوم کے سامنے یہ طویل قصہ بیان کیا درآنحالیکہ آپ نے گزشتہ انبیا کی کتابیں پڑھی تھیں نہ کسی سے درس لیا تھا۔ آپ کی قوم نے آپ کا خوب اچھی طرح مشاہدہ کیا ہے۔ آپ کے شب و روز آپ کی قوم کے سامنے تھے وہ خوب جانتے تھے کہ آپ امی ہیں، آپ لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں۔ یہ قصہ کتب سابقہ میں مذکورہ قصہ سے مطابقت رکھتا ہے حالانکہ آپ وہاں موجود نہ تھے جب یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کے خلاف منصوبے بنا رہے تھے اور سازش کر رہے تھے۔ (4) شر کے اسباب سے دور رہنا مناسب ہے۔ اسی طرح ایسے امورکو چھپانا مناسب ہے جن سے ضرر پہنچنے کا خدشہ ہوجیسا کہ یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام سے فرمایا تھا : ﴿ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا﴾ ” اپنا خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تجھے آزار پہنچانے کے لئے سازشیں کریں گے۔ “ (5) کسی کے سامنے خیر خواہی کے طور پر ناپسندیدہ امور کا ذکر کرنا جائز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے ﴿ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ﴾ ” وہ تجھے آزار پہنچانے کے لئے سازشیں کریں گے۔ “ (5) یہ قصہ دلالت کرتا ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمت اس کے تمام متعلقین، مثلاً اس کے گھر والوں، عزیز و اقارب اور دوست احباب سے سب کے لئے نعمت ہوتی ہے اور بسا اوقات وہ اس نعمت میں سب کو شامل کرلیتا ہے اور ان کو بھی اس کے باعث وہ چیز حاصل ہوجاتی ہے جو اسے حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ آلِ يَعْقُوبَ ﴾ ” اسی طرح تیرا رب تجھے چن لے گا اور باتوں کی تعبیر کا علم دے گا اور تجھ پر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت کا اتمام کرے گا۔“ جب یوسف علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اتمام ہوا تو آل یعقوب کو بھی عزت و وقار اور ملک میں اقتدار حاصل ہوا اور یوسف علیہ السلام کے سبب سے انہیں بھی مسرت اور خوشی حاصل ہوئی۔ (7) سورۃ مقدسہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ عدل و انصاف تمام امور میں مطلوب و مقصود ہے، بادشاہ کا اپنی رعیت وغیرہ کے ساتھ ہی انصاف کا معاملہ کرنا ضروری نہیں، بلکہ محبت اور ترجیح دینے کے معاملے میں والد اور اولاد کے مابین بھی عدل و انصاف ہوجاتا ہے اور حالات خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں، کیونکہ جب محبت کے معاملے میں یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں پر ترجیح دی تو بھائیوں کی طرف سے خود ان پر، ان کے باپ پر اور ان کے بھائی پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے۔ (8) گناہوں کی نحوست سے بچنا چاہیے کیونکہ ایک گناہ اپنے ساتھ متعدد گناہ لاتا ہے اور بہت سے جرائم کے بعد اس گناہ کی تکمیل ہوتی ہے۔ چنانچہ جب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یوسف علیہ السلام اور ان کے باپ کے مابین جدائی ڈالنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے بہت سے حیلے استعمال کئے، متعدد بار جھوٹ بولا، انہوں نے یوسف علیہ السلام کی قمیص اور خون کے سلسلے میں باپ کے سامنے باطل افسانہ گھڑا۔ ان کے اس افسانے اور عشاء کے وقت روتے ہوئے آنے میں نرا جھوٹ تھا اور یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ اس مدت کے دوران اس بارے میں بہت بحث و تمحیص ہوئی ہو بلکہ شاید یہ بحث اس وقت تک ہوتی رہی ہو جب تک کہ وہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ اکٹھے نہ ہوئے اور جب کبھی بحث ہوتی ہے تو جھوٹی خبریں اور افترا پردازی ضرور ہوتی ہے۔ یہ گناہ کی نحوست اور اس کے آثار ہیں۔ (9)بندے کے احوال میں ابتدائی نقص میں عبرت نہیں ہوتی، بلکہ کمال انتہا میں عبرت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں سے ابتدائی طور پر جو کچھ صادر ہوا وہ نقص کا سب سے بڑا سبب اور ملامت کا موجب تھا مگر اس کی انتہا، خالص توبہ اور یوسف علیہ السلام اور ان کے باپ کی طرف سے کامل معافی، مغفرت اور رحمت کی دعا پر ہوئی اور جب بندہ اپنے حق کو معاف کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ اس لئے صحیح ترین قول یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائی نبی تھے اور اس کی دلیل اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ ﴾ (النساء :4؍163)” اور ہم نے وحی بھیجی ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب کی طرف۔“ یہاں ﴿ الْأَسْبَاطِ ﴾سے مراد یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے اور ان کی اولاد ہے۔ نیز ان کی نبوت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے خواب میں ان کو روشن ستاروں کے طور پر دیکھا اور ستاروں میں روشنی اور راہ نمائی ہوتی ہے۔ اور یہ انبیاء کے اوصاف ہیں اور اگر وہ نبی نہیں تھے تو وہ راہ نمائی کرنے والے علماء تھے۔ [برادران یوسف علیہ السلام کی نبوت کی یہ ” دلیلیں“ جن سے فاضل مفسر نے استدلال کیا ہے، کوئی واضح اور مضبوط دلیل نہیں۔ ان کے مقابلے میں عدم نبوت کی دلیل زیادہ واضح ہے، انہوں نے ایک ایسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا جس میں چھوٹے معصوم بچے کے ساتھ سنگ دلانہ اقدام اور ظلم و ستم ہے، قطع رحمی ہے، والدین کی نافرمانی اور ان کی ایذا رسانی ہے، جھوٹ کا ارتکاب ہے، وغیرہ۔ انبیاء علیہم السلام سے ان حرکتوں کا صدور ممکن ہے؟ (مزید دیکھئے تفسیر فتح القدیر وابن کثیر، تفسیر سورۃ یوسف علیہ السلام آیت : ٩، ١٠) علاوہ ازیں ”اوحینا“ کے لفظ سے بھی نبوت پر استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ یہ لفظ غیر انبیاء کے لئے بھی قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔ (ص۔ ی) ] (10) اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو علم، حلم، مکارم اخلاق اور اللہ اور اس کے دین کی طرف دعوت سے نوازا۔ نیز یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی نوازش اور عنایت ہی تھی کہ انہوں نے اپنے خطا کار بھائیوں کو فوراً معاف کردیا اور اس معافی کی تکمیل یہ کہہ کر کردی کہ اب وہ ان کا کوئی مواخذہ کریں گے نہ اس پر انہیں کوئی عار دلائیں گے۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے ماں باپ کے ساتھ عظیم کرنا اور اپنے بھائیوں بلکہ تمام مخلوق کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ (11)کچھ برائیاں دوسری برائیوں سے خفیف تر اور چھوٹی ہوتی ہیں۔ (اگر دو برائیوں میں سے ایک برائی کا ارتکاب ناگزیر ہو تو)اس برائی کا ارتکاب کرنا جس کا ضرر کم تر ہو، اس برائی کے ارتکاب سے اولیٰ و افضل ہے جس کا ضرر بڑا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں میں جب حضرت یوسف علیہ السلام کے قتل یا ان کو کہیں دور زمین میں پھینکنے پر اتفاق ہوگیا، تو ان میں سے ایک نے کہا : ﴿لَا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ﴾ ” یوسف کو قتل نہ کرو بلکہ اسے کسی اندھے کنوئیں میں پھینک دو۔“ گویا اس کی تجویزسب سے بہتر اور نرم تجویز تھی۔ جس کے سبب سے ان کے بھائیوں سے ایک بہت بڑا گناہ ٹل گیا اور یہ بڑا گناہ ایک خفیف تر گناہ میں منتقل ہوگیا۔ (12) جب کوئی چیز کاروبار میں دست بدست متداول ہوجائے اور وہ مال شمار ہونے لگے اور کاروبار کرنے والے کو اس کے غیر شرعی ہونے کا علم نہ ہو تو اس کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے، اس میں خدمت کرنے والے، اس سے مفاد اٹھانے والے اور اس کو استعمال میں لانے والے کے لئے کوئی گناہ نہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے انہیں بیع حرام کی صورت میں فروخت کیا تھا، یہ بیع قطعاً جائز نہ تھی۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام کو خریدنے والا قافلہ انہیں لے کر مصر چلا گیا اور وہاں لے جا کر فروخت کردیا اور وہ اپنے آقا کے پاس غلام کے طور پر رہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو ” آقا“ کے نام سے موسوم کیا ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس ایک مکرم غلام کے طور پر رہتے رہے۔ (13) ان عورتوں کے ساتھ خلوت سے بچنا چاہیے جن سے فتنے کا خوف ہو۔ اسی طرح ایسی محبت سے بھی بچنا چاہیے جس سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ عزیز مصر کی بیوی کی طرف سے جو کچھ ہوا وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ خلوت اور ان کے ساتھ اس کی شدید محبت کے سبب سے ہوا، محبت نے اس عورت کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو پھسلانے کے لئے ڈورے نہیں ڈالے، پھر ان پر بہتان لگایا اور یوسف علیہ السلام اس عورت کے بہتان کے سبب سے طویل مدت تک قید میں رہے۔ (15) یوسف علیہ السلام نے اس عورت کے ساتھ ارادہ کیا پھر اسے اللہ تعالیٰ کی خاطر ترک کردیا۔ اس ترک ارادہ نے حضرت یوسف کو اللہ تعالیٰ کے اور قریب کردیا۔ کیونکہ اس قسم کا ارادہ نفس امارہ کے اسباب میں شمار ہوتا ہے جو ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے اور اکثرلوگوں کی یہی فطرت ہے۔ پس جب انہوں نے اس ارادے کا اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت کے ساتھ تقابل کیا تو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت نفس امارہ کے داعیے اور اس کی خواہش پر غالب آگئی۔ گویا آپ ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ ﴾ (النزعت:79؍40)” جو کوئی اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکتا رہا۔“ اور آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، ان سات قسم کے لوگوں میں سے ہیں جنہیں قیامت کے روز عرش کے سائے میں جگہ ملے گی، جس روز اس کے سائے کے سوا کہیں سایہ نہ ہوگا اور ان سات قسم کے لوگوں میں ایک وہ شخص ہوگا جسے حسن وجمال رکھنے والی اور منصب و حیثیت کی حامل کوئی عورت بد کاری کی دعوت دیتی ہے اور وہ جواب میں کہتا ہے ”میں تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔“ اور وہ ارادہ جس پر بندہ قابل ملامت ہے، وہ ارادہ ہے جو دل میں جا گزیں ہو کر عزم بن جائے جس کے ساتھ بسا اوقات فعل مل جاتا ہے۔ (15)جس کے دل میں ایمان جا گزیں ہوجاتا ہے اور وہ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص سے کام لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایمان، صدق اور اخلاص کی برہان کے ذریعے سے مختلف اقسام کی برائیوں، بے حیائی اور گناہوں کے اسباب سے مدافعت کرتا ہے۔ یہ مدافعت اس کے ایمان اور اخلاص کی جزا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ﴾(لنصرف) کے یہ معنی لازم کے کسرے کے ساتھ ہیں (جیسا کہ متد اول قراءت میں ہے) اور اگر اسے لام کے فتح کے ساتھ پڑھایاجائے تو اس کے معنی ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا اسے اپنے لئے چن لینا اور یہ خود اس کے اخلاص کو متضمن ہے، یعنی جب بندہ اپنے عمل کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے برائی اور بے حیائی سے پاک کرکے اسے اپنے لئے چن لیتا ہے۔ (16) بندہ مومن کے لئے مناسب یہ ہے کہ جب وہ کوئی ایسا مقام دیکھے جہاں فتنہ اور معصیت کے اسباب موجود ہوں، تو مقدور بھر وہاں سے نکلنے اور بھاگنے کی کوشش کرے تاکہ وہ گناہ سے بچ سکے، کیونکہ جب یوسف علیہ السلام پر اس عورت نے، جس کے گھر میں وہ رہ رہے تھے، ڈورے ڈالنے شروع کئے تو وہ اس جگہ سے فرار ہو کر دروازے کی طرف بھاگے، تاکہ وہ اس عورت کے شر سے بچ جائیں۔ (17) اشتباہ کے موقع پر قرائن سے کام لیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اگر خاوند اور بیوی گھر کے ساز و سامان کی ملکیت کے بارے میں جھگڑ پڑیں اور دونوں کے پاس اپنی ملکیت کا واضح ثبوت نہ ہو تو جو چیز مرد کے حال کے مطابق ہے وہ مرد کی ملکیت ہے اور جو عورت کے حال کے مطابق ہے وہ اس کی مالک ہے۔ اسی طرح اگر بڑھئی اور لوہار کسی اوزار کی ملکیت پر جھگڑ پڑیں اور دونوں میں سے کسی کے پاس بھی کوئی ثبوت نہ ہو تو قرائن پر عمل کیا جائے گا۔ ملتی جلتی چیزوں اور نشان قدم میں قیافہ پر عمل کرنا بھی اسی باب میں شامل ہے۔ یوسف علیہ السلام کے گواہ نے قرینے کی گواہی دی تھی۔ اس نے قمیص کی پھٹن کو دیکھ کر قرینے کی گواہی دی اور قمیص کو پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھ کر حضرت یوسف علیہ السلام کی صداقت اور اس عورت کے جھوٹے ہونے پر استدلال کیا۔ اس قاعدے کی صحت پر ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کی خرجی میں سے گیہوں ناپنے والے پیالے کے پائے جانے سے استدلال کرتے ہوئے بغیر کسی ثبوت اور اقرار کے اس پر چوری کا حکم لگایا گیا۔ پس اگر مال مسروقہ چور کے قبضے میں پایا جائے، خاص طور پر جبکہ وہ چوری کرنے میں معروف ہو تو اس پر چوری کا حکم لگایا جائے گا اور یہ (عینی) شہادت سے زیادہ بلیغ شہادت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص شراب کی قے کرتا ہے یا کوئی ایسی عورت، جس کا شوہر یا آقا نہیں، حاملہ پائی جاتی ہے تو اس پر حد جاری کی جائے گی بشرطیکہ کوئی مانع موجود نہ ہو۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے قرینے کے اس فیصلے کو شاہد سے موسوم کیا ہے۔ ﴿وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا ﴾ (18) حضرت یوسف علیہ السلام ظاہری اور باطنی حسن و جمال کے حامل تھے ان کا ظاہری حسن و جمال اس عورت کے لئے، جس کے گھر میں حضرت یوسف علیہ السلام تھے، اس امر کا موجب بنا جس کی تفصیل گزری اور اسی طرح ان کا حسن و جمال ان عورتوں کے لئے بھی، جن کو عزیز مصر کی بیوی نے ان کے ملامت کرنے پر اکٹھا کیا تھا، اس امر کا موجب بنا کہ انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور وہ بے ساختہ پکاراٹھیں: ﴿مَا هَـٰذَا بَشَرًا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ ﴾ ” یہ شخص انسان نہیں یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔ “ رہا ان کا باطنی حسن و جمال تو وہ ان کی عظیم عفت تھی۔ گناہ میں پڑنے کے بہت سے اسباب کے باوجود گناہ سے بچے رہے۔ اس کے بعد خود عزیز مصر کی بیوی اور ان عورتوں نے آپ کی عفت اور پاک دامنی کی شہادت دی۔ اس لئے عزیز مصر کی بیوی نے کہا : ﴿وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ﴾ ” میں نے اسے پھسلانے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر وہ بچ نکلا“ اس کے بعد اس نے کہا : ﴿الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ ” اب حق واضح ہوگیا ہے، میں نے ہی اسے پھسلانے کی کوشش کی تھی اور بے شک وہ سچا ہے“ عورتوں نے کہا : ﴿حَاشَ لِلَّـهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ ﴾ ” حاشا للہ ! ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔ “ (19) یوسف علیہ السلام نے معصیت کے مقابلے میں قید کو ترجیح دی۔ بندہ مومن کے یہی شایان شان ہے کہ اگر وہ دوامور کے بارے میں کسی آزمائش میں مبتلا ہوجائے۔ ایک طرف کسی معصیت کا ارتکاب ہو اور دوسری طرف دنیاوی عقوبت، تو وہ گناہ کی بجائے، جو دنیا و آخرت میں سخت عقوبت کا موجب ہے، دنیاوی عقوبت کو ترجیح دے۔ ایمان کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ بندہ کفر کی طرف لوٹنے کو، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر سے بچا لیا ہے، اسی طرح ناپسند کرے، جس طرح وہ آگ میں پھینکے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔ (20) بندہ مومن کے لئے مناسب یہی ہے کہ اسباب گناہ کے موجود ہونے پر اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آکر اسی کی پناہ میں رہے اور اپنی قوت و اختیار سے وست بردار ہوجائے جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا : ﴿وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ ﴾ ” اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دور نہ ہٹایا تو میں ان کی چالوں میں آکر جاہلوں میں شامل ہوجاؤں گا۔ “ (21) جس طرح فراخی میں بندے پر اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا التزام واجب ہے، اسی طرح تنگی میں بھی اس پر یہ التزام واجب ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے رہے جب وہ قید میں ڈال دئیے گئے تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت پر قائم رہے اور ان دو نوجوان قیدیوں کو (جو ان کے ساتھ قید میں ڈالے گئے تھے) توحید کی دعوت دی اور ان کو شرک سے روکا۔ یہ سیدنا یوسف علیہ السلام کی ذہانت تھی کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ان نوجوان قیدیوں میں ان کی دعوت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔۔۔ کیونکہ وہ دونوں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے چنانچہ ان کا قول تھا ﴿إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ اور وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس اپنے اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے کے لئے آئے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی دیکھا کہ وہ ان کے پاس اپنے خواب کی تعبیر جاننے کا اشتیاق رکھتے ہیں، تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان کو ان کے خواب کی تعبیر بتانے سے پہلے توحید کی دعوت دی تاکہ وہ اپنا مطلوب ومقصود حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ سب سے پہلے آپ نے ان کے سامنے واضح کیا کہ جس نے آپ کو علم و کمال کے اس مقام پر پہنچایا، جسے وہ دیکھ رہے ہیں، وہ ہے ایمان، توحید اور ان لوگوں کی ملت کو چھوڑ دینا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ زبان حال سے ان کو توحید کی دعوت دینا ہے۔ پھر آنجناب نے ان کو زبان قال سے توحید کی دعوت دی۔ آپ نے ان کے سامنے شرک کی خرابی بیان کی ہے اور اس کی دلیل اور برہان پیش کی اور دلیل و برہان ہی کے ساتھ ان کے سامنے حقیقت توحید کو بیان کیا۔ (22) معاملات میں، اہم ترین معاملے سے ابتدا کرنی چاہیے۔ جب مفتی سے کوئی سوال کیا جائے اور سائل اس سوال سے زیادہ کسی اور چیز کا ضرورت مندہو تو مفتی کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ سب سے پہلے اسے اس چیز کی تعلیم دے جس کا وہ زیادہ حاجت مند ہے۔ یہ معلم کی خیر خواہی، اس کی فطانت اور اس کے حسن تعلیم و ارشاد کی علامت ہے۔ جب نوجوان قیدیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو آپ نے ان کو خواب کی تعبیر بتانے سے قبل اللہ وحدہ لا شریک کی طرف دعوت دی۔ (23) اگر کوئی شخص کسی نا خوشگوار صورت حال اور کسی سختی میں گرفتار ہوجائے تو کسی ایسے شخص سے مد دلینا جو اس صورت حال سے نجات میں مددگار ثابت ہوسکتا ہو، یا اسے اپنے حال سے آگاہ کرے تو یہ مخلوق کے پاس شکوے کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ اس کا تعلق امور عادیہ سے ہے۔ جو عرف عام میں لوگوں کی ایک دوسرے کی مدد کے ذریعے سے سر انجام پاتے ہیں۔ بنا بریں یوسف علیہ السلام نے ان نوجوان قیدیوں میں سے جس کے رہا ہونے کی امید تھی، اس سے کہا : ﴿اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ ﴾ ” اپنے آقا کے پاس میرا ذکر کرنا “ (24) معلم کے لئے تاکید ہے کہ وہ تعلیم دینے میں کامل اخلاص سے کام لے اور اپنی تعلیم کو کسی سے معاوضہ میں مال و جاہ یا کوئی منفعت حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بنائے۔ تعلیم دینے میں خیر خواہی سے کام لے جب تک سائل کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے معلم کو تکلیف پہنچے، تعلیم دینے سے یا اس کی خیر خواہی کرنے سے انکار نہ کرے۔ یوسف علیہ السلام نے ان دو نوجوان قیدیوں میں سے جس کو تاکید کی تھی کہ وہ اپنے آقا کے پاس ان کا ذکر کرے مگر اسے اپنے آقا کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنا یاد نہ رہا۔ جب انہیں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے اسی نوجوان کو بھیجا وہ اس خواب کی تعبیر کے بارے میں پوچھنے کے لئے حضرت یوسف علیہ السلامکی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے محض اس بنا پر کہ اس نے ان کا ذکر اپنے آقا کے پاس نہیں کیا، اس پر ناراضی کا اظہار کیا نہ اس پر زجر و توبیخ کی، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے اسے ہر لحاظ سے اس کے سوال کا مکمل جواب دیا۔ (25) مسؤل کو چاہیے کہ وہ سوال کا جواب دیتے وقت سائل کی ایسے معاملے کی طرف رہنمائی کرے جو اس کے سوال سے متعلق اور اس کے لئے فائدہ مند ہو۔ اسے وہ راستہ دکھائے جس پر گامزن ہو کر وہ دین و دنیا میں فائدہ اٹھائے۔ یہ اس کی طرف سے کامل خیر خواہی، اس کی فطانت اور اس کا حسن ارشاد ہے۔ کیونکہ یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر کو صرف اس کے خواب کی تعبیر بتانے پر اکتفا نہیں کیا تھا، بلکہ آپ نے خواب کی تعبیر بتانے کے ساتھ ساتھ ان کی رہنمائی فرمائی کہ وہ شادابی کے سالوں میں بکثرت پیدا ہونے والے اناج اور محاصل کو ذخیرہ کرنے کے لئے کیا انتظامات کریں۔ (26) اگر کوئی شخص اپنے ذمے کسی تہمت کو دور کرنے اور اپنی براءت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو ملامت نہیں کی جاسکتی، بلکہ اس کا یہ فعل قابل ستائش ہے۔ جیسے جناب یوسف علیہ السلام نے اس وقت تک قید سے رہا ہونے سے انکار کردیا تھا جب تک کہ ان عورتوں کے احوال کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے آپ کی براءت نہ ہوجائے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے۔ (27) ان آیات کریمہ سے علم، یعنی علم شریعت و احکام، علم تعبیر، علم تدبیر اور علم تربیت کی فضیلت مستفاد ہوتی ہے۔ نیز علم، ظاہری شکل و صورت سے افضل ہے خواہ یہ ظاہری شکل و صورت، حسن یوسف ہی کو کیوں نہ پہنچ جائے، کیونکہ یوسف علیہ السلام کو اپنے حسن و جمال کی وجہ سے ابتلاء ومحن اور قید و ہند کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے علم کے سبب سے انہیں عزت، سر بلندی اور زمین میں اقتدار حاصل ہوا۔ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی علم کے آثار اور اس کے موجبات ہیں۔ )28( علم تعبیر، علوم شرعیہ میں شمار ہوتا ہے، اس کی تعلیم و تعلم میں مشغول ہونے والے کو ثواب حاصل ہوتا ہے اور خواب کی تعبیر فتویٰ میں داخل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ ﴾ ’’اس بات کا فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم فتوی طلب کر رہے تھے۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کا قول نقل فرمایا ﴿ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ﴾ ’’مجھے میرے خواب کےبارے میں فتوی دو‘‘ نجات پانے والے نوجوان نے یوسف علیہ السلام سے کہا : ﴿ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ﴾ ’’ہمیں سات گایوں کےبارے میں فتویٰ دو‘‘ ان تمام آیات میں تعبیر کے لیے فتویٰ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس لیے علم کے بغیر خواب کی تعبیر نہیں بتانی چاہیے ۔ (29) اگر انسان اپنی کسی صفت کمال مثلاً علم یا عمل وغیرہ کے بارے میں کسی حقیقی مصلحت کے تحت لوگوں کو آگاہ کرتا ہے ، نیز اس سے ریاکاری مقصود نہ ہو او رجھوٹ سے محفوظ ہو... تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر سے فرمایا تھا : ﴿اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ ﴾ ’’مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے ، میں حفاظت کرنے والا ہوں اور ان کے انتظام کا علم بھی رکھتا ہوں۔‘‘ اسی طرح عہدہ قابل مذمت نہیں جبکہ اس عہدہ میں متعین شخص مقدور بھر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی حفاظت کرتا ہو اور اسی طرح اس عہدے کے طلب کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جبکہ وہ کسی دوسرے سے زیادہ اس عہدے کا اہل ، عہدہ طلب کرنا اس وقت قابل مذمت ہے جب وہ اس عہدے کا اہل نہ ہو اور اس عہدے کی قابلیت رکھنے والا اس جیسا یا اس سے زیادہ قابل کوئی اور شخص موجود ہو ۔ یا وہ اس عہدے کے ذریعے سے ان امور کو قائم کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو جن کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے ۔ ان وجوہات کی بنا پر اسے عہدہ حاصل کرنے سے روکا جائے گا۔ (30) اللہ تبارک و تعالیٰ کا جود و کرم بحربے کراں کی مانند ہے ۔ وہ اپنے بندے کو دنیا و آخرت کی بھلائی سے نوازتا ہے ۔ آخرت کی بھلائی کے دو اسباب ہیں ..... ایمان وتقوی.......... آخرت کی بھلائی ، دنیاوی ثواب اور دنیاوی اقتدار سے کہیں زیادہ بہتر ہے ۔ بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کےلیے دعا کرتا رہے اور اسے اخروی ثواب کا شوق دلاتا رہے اور وہ نفس کو یوں نہ چھوڑ دے کہ وہ دنیاداروں کی زیب و زینت اور لذات کو دیکھ کر غم زدہ ہوتا رہے ۔ درآں حالیکہ وہ ان کے حصول پر قادر نہ ہو ، بلکہ اس کے برعکس وہ اخروی ثواب اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ذریعے سے اسے تسلی دیتا رہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴾ ’’ اور آخرت کا اجر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ایمان لائے اور تقویٰ سے انہوں نے کام لیا ۔ ‘‘ (31) غلے اور اناج کو جمع اور ذخیرہ کر کے رکھنا، جبکہ اس سے لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کے لیے وسعت مقصود ہو، اور اس سے لوگوں کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو، کوئی حرج نہیں۔ یوسف علیہ السلام نے شادابی اور فراوانی کے ایام میں غلے اور اناج کو جمع کر کے رکھنے کا حکم دیا، تاکہ خشک سالی کے ایام کا مقابلہ کرنے کی تیاری کی جا سکے اور اس طرح غلہ جمع کرنا توکل کے منافی نہیں، بلکہ بندہ مومن کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور وہ تمام اسباب کام میں لائے جو اس کے لئے دین و دنیا میں فائدہ مند ہوں۔ (32)یہ قصہ دلالت کرتا ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو زمین کے خزانوں کا منتظم مقرر کیا گیا تو انہوں نے حسن انتظام سے کام لیا یہاں تک کہ ان کے ہاں بکثرت اناج جمع ہوگیا اور دوسرے ملکوں سے لوگ غلہ اور خوراک حاصل کرنے کے لئے مصر کا قصد کرنے لگے، کیونکہ انہیں علم تھا کہ مصر میں غلہ بکثرت موجود ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام ہر آنے والے کو بقدر حاجت غلہ دیتے ہیں، وہ غلہ زیادہ دیتے تھے نہ کم، چنانچہ ہر آنے والے کو ایک بار شتر سے زیادہ غلہ نہیں دیتے تھے۔ (33) مہمان نوازی مشروع ہے اور یہ انبیاء و مرسلین کی سنت ہے مہمان کی عزت و تکریم یوسف علیہ السلام کے اس قول سے مستفاد ہے ﴿أَلَا تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَا خَيْرُ الْمُنزِلِينَ ﴾ ” کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں اناج پورا ناپ کردیتا ہوں اور میں بہترین مہمانی کرتا ہوں۔ “ (34) قرینے کی دلیل موجود ہوتے ہوئے بدظنی ممنوع ہے نہ حرام۔ کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے جب حضرت یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کے ساتھ بھیجنے سے انکار کردیا اور ان کے بیٹوں نے سخت اصرار کیا اور جب انہوں نے جھوٹا بہانہ بنایا کہ یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا، تو یعقوب نے ان سے کہا : ﴿بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ ﴾ ” بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لئے ایک کام کو مزین کر کے آسان بنا دیا۔“ پھر یعقوب علیہ السلام نے دوسرے بھائی (بنیامین) کے بارے میں فرمایا: ﴿هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِن قَبْلُ ﴾ ” کیا میں اس کے بارے میں بھی اسی طرح اعتماد کرلوں جس طرح میں نے اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں اعتماد کیا تھا“ اور جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بنیامین کو اپنے پاس روک لیا اور اس کے بھائی اپنے باپ یعقوب علیہ السلام کے پاس آئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان سے پھر یہی کہا : ﴿بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ﴾ حالانکہ دوسری مرتبہ انہوں نے کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ البتہ ان سے ایک ایسا کام سر زد ہوا جس پر ان کے باپ کو یہ کہنا پڑا، جس میں کوئی گناہ اور حرج نہیں۔ (35) نظر بد کے اثرات کے سدباب یا اس کے اثر انداز ہونے کے بعد اس اثر کو ختم کرنے کے لئے اسباب کو استعمال کرنا ممنوع نہیں، بلکہ جائز ہے، اگرچہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہی سے واقع ہوتی ہے اور اسباب اختیار کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہی ہے، چنانچہ یعقوب نے اپنے بیٹوں کو اسباب اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان سے فرمایا : ﴿ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ ﴾ ”اے میرے بیٹو ! ایک ہی دروازے میں سے شہر میں مت داخل ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ “ (36 ) اس سورۃ مقدسہ سے، حقوق کے حصول کے لئے، حیلہ سازی کا جواز مستفاد ہوتا ہے اور خفیہ طریقوں کو استعمال کر کے ایسی معلومات حاصل کرنا، جن کے ذریعے سے ان کے مقاصد تک پہنچنا آسان ہو، ایسے امور میں سے ہے، جس پر بندہ قابل ستائش ہے۔ صرف ایسی حیلہ سازی حرام اور ممنوع ہے جس سے کسی واجب کا اسقاط اور کسی حرام کا ارتکاب لازم آتا ہو۔ (37) اس شخص کے لئے، جو کسی کو کسی ایسے معاملے میں وہم میں ڈالنا چاہتا ہے جس کے بارے میں اسے مطلع کرنا اسے پسند نہ ہو، مناسب ہے کہ وہ ایسی قولی اور فعلی تعاریضات استعمال کرے، جو جھوٹ سے مانع ہوں۔ جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے کیا تھا، چنانچہ انہوں نے گیہوں ناپنے والا پیمانہ اپنے بھائی کی خرجی میں ڈلوا دیا۔ پھر اس میں سے نکال دکھایا اور ظاہر کیا کہ وہ چور ہے اور اس میں اس کے بھائیوں کیلئے اس کے چور ہونے کا بس ایک قرینہ تھا۔ اس کے بعد یوسف علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ مَعَاذَ اللَّـهِ أَن نَّأْخُذَ إِلَّا مَن وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِندَهُ ﴾ ” اللہ کی پناہ ! ہم اس شخص کو چھوڑ کر جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے دوسرے کو کیسے پکڑ سکتے ہیں۔“ نیز حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا : ( مَنْ سَرَقَ مَتَاعَنَا ) ” جس نے ہمارا سامان چوری کیا‘‘ اور نہ یہ فرمایا ( اِنّاوَجَدْنَامَتَاعَنَاعِنْدَه) ” بے شک ہم نے اپنا سامان اس کے پاس پایا ہے۔“ بلکہ انہوں نے ایسے اسلوب میں بات کی جس کا اطلاق ان کے بھائی کے علاوہ کسی اور پر بھی ہوسکتا تھا اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے بچا جانا چاہئے، اس میں صرف یہ ابہام ہے کہ وہ چور ہے تاکہ وہ مقصد حاصل ہوسکے جو ان کے پیش نظر تھا اور ان کا بھائی ان کے پاس رہ سکے اور جب صورتحال واضح ہوگئی تو ان کے بھائی سے یہ ابہام بھی زائل ہوگیا۔ (38) انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے علم تحقیق، مشاہدہ اور قابل اعتماد خبر جس پر اطمینان نفس ہو۔۔۔ کے علاوہ کسی اور چیز کے مطابق گواہی دے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا تھا : ﴿وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا ﴾ ” ہم تو صرف اسی کے متعلق گواہی دے سکتے ہیں جس کے متعلق ہم جانتے ہیں۔ “ (39) یہ ایک عظیم آزمائش تھی جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی اور اپنے چنے ہوئے بندے، یعقوب کو آزمایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اور ان کے بیٹے یوسف علیہ السلام کے درمیان جدائی ڈال دی جن سے ایک گھڑی کے لئے جدا ہونا بھی ان کے بس میں نہ تھا، اتنی سی جدائی بھی انہیں سخت غم زدہ کردیتی تھی۔ پس طویل عرصے تک وہ ایک دوسرے سے جدا رہے جو تیس سال سے کم نہ تھا اس عرصہ کے دوران حزن و غم یعقوب کے دل سے کبھی جدا نہ ہوا۔ ﴿وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ ﴾ ” غم سے ان کی آنکھیں سفید پڑگئیں اور وہ غم میں گھل رہا تھا۔“ اور معاملہ اس وقت اور بھی زیادہ سخت ہوگیا جب ان کا دوسرا بیٹا، یوسف علیہ السلام کا حقیقی بھائی بھی، ان سے جدا ہوگیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر کی امید میں اس کے حکم کے مطابق صبر کر رہے تھے انہوں نے اپنے آپ سے صبر کا عہد کرلیا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے عہد پر پورے اترے۔ ان کا یہ قول صبر کے منافی نہیں ﴿إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّـهِ﴾ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس شکوہ کرنا صبر کے منافی نہیں ہوتا۔ صرف وہ شکوہ صبر کے منافی ہے جو مخلوق کے پاس کیا جائے۔ (40) دکھ کے بعد سکھ اور تنگی کے بعد فراخی ضرور آتی ہے۔ یعقوب پر رنج و غم کی مدت بہت طویل ہوگئی۔ شدت غم اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور آل یعقوب کو بدحالی نے لاچار کردیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر خوش حالی بھیج دی۔ انتہائی سخت حالات میں ان کی ملاقات ہوئی اور یوں اجر کی تکمیل ہوگئی اور انہیں راحت و سرور حاصل ہوا۔ اس سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو سختی اور نرمی، تنگ دستی اور فراخ دستی کے ذریعے سے آزماتا ہے، تاکہ ان کے صبر و شکر کا امتحان لے اور اس طرح ان کے ایمان، یقین اور عرفان میں اضافہ ہو۔ (41) اگر انسان اپنے موجودہ احوال یعنی کسی مرض اور فقروغیرہ کے بارے میں ناراضی کا اظہار کئے بغیر کسی کو آگاہ کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یوسف علیہ السلام سے کہا : ﴿يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ ﴾ ” اے عزیز مصر ! ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو مصیبت اور بدحالی نے آ گھیرا ہے۔“ اور ان کے اس قول پر حضرت یوسف علیہ السلام نے نکیر نہیں فرمائی۔ (42) اس پورے قصے میں تقویٰ کی فضیلت مستفاد ہوتی ہے۔ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی تقویٰ اور صبر کے آثار کی وجہ سے ہے۔ اہل تقویٰ اور اہل صبر کا انجام بہترین انجام ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿قَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ ” اللہ نے ہم پر احسان فرمایا بے شک اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ نیک لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ “ (43) جس کسی کو شدید محتاجی اور بدحالی کے بعد اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نوازا ہو، اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف کرے اور اپنی پہلی بدحالی اور محتاجی کو یاد رکھے تاکہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا رہے۔ جیسا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا : ﴿وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ ﴾ ” اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان فرمایا ہے کہ اس نے مجھے قید خانے سے نکالا اور تم لوگوں کو صحرا سے یہاں لایا۔ “ (44) یوسف علیہ السلام پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا عظیم لطف و کرم تھا کہ اس نے آپ کو ان احوال سے منتقل کر کے سختیوں اور مصائب میں مبتلا کیا، تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آپ کو اعلیٰ ترین منازل اور بلند ترین درجات پر فائز کرے۔ (45) بندہ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان پر ثابت قدمی کے لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتا رہے اور ایسے اسباب روبہ عمل لاتا رہے جو ایمان پر ثابت قدمی کے موجب ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے اتمام نعمت اور خاتمہ بالخیر کا سوال کرتا رہے۔ جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے عرض کیا : ﴿رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴾ ” اے میرے رب ! تو نے مجھے اقتدار عطا کیا اور تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے دنیا و آخرت میں تو ہی میرا سرپرست ہے۔ اسلام پر مجھے موت دے اور مآل کار مجھے نیک لوگوں کے ساتھ شامل کر۔ “ اس بابرکت قصے میں یہ چند نکات اور تعبیرات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے میرے لئے آسان فرمایا اور ضروری ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس قصہ میں غور و فکر کرنے والے پر تعبیرات کے کچھ اور دریچے وا کر دے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عمل نافع اور عمل مقبول کا سوال کرتے ہیں، بلاشبہ وہ جو دو کرم کا مالک ہے۔