وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور جب وہ لوگ (مصر میں) اسی طرح داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا، تو یہ تدبیر اللہ کی کسی تدبیر کو ان سے نہیں ٹال (٦٠) سکتی تھی، یہ تو یعقوب کے دل کی ایک بات تھی جو انہوں نے پوری کی تھی اور ہم نے انہیں جو علم دیا تھا اس کے سبب وہ (تدبیر و تقدیر کے مسائل کو) خوب جانتے تھے، لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ہیں۔
﴿وَلَمَّا ﴾ ” اور جب“ یعنی جب وہ روانہ ہوگئے۔ ﴿دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ﴾ ”)اور( داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے ان کو حکم دیا تھا، )ان کا یہ فعل( ان کو اللہ کی کسی بات سے نہ بچا سکتا تھا، مگر ایک خواہش تھی یعقوب کے جی میں، سو وہ اس نے پوری کرلی۔“ اور وہ تھا اولاد کے لئے شفقت اور محبت کا موجب، ایسا کرنے سے ان کو ایک قسم کا اطمینان حاصل ہوگیا تھا اور ان کے دل میں جو خیال گزرا تھا وہ بھی پورا ہوگیا اور یہ یعقوب علیہ السلام کے علم کی کوتاہی نہیں، کیونکہ وہ انبیائے کرام اور علمائے ربانی میں سے تھے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کی مدافعت کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ ﴾ ” وہ علم عظیم کے مالک تھے“ ﴿لِّمَا عَلَّمْنَاهُ ﴾ ” کیونکہ ہم نے ان کو تعلیم دی تھی۔“ یعنی انہوں نے اپنی قوت و اختیار سے اس کا ادراک نہیں کیا تھا، بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا عطا کردہ علم کار فرما تھا۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ ” لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ یعنی اکثر لوگ معاملات کے انجام اور اشیاء کی باریکیوں کو نہیں جانتے۔ اسی طرح اہل علم پر بھی علم، احکام اور اس کے لوازم میں سے بہت کچھ مخفی رہ جاتا ہے۔