قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ
یوسف نے کہا کہ آپ مجھے ملک کے خزانوں کا ذمہ دار بنا دیجیے۔ (٤٩) میں بیشک ان کی خوب حفاظت کروں گا، اور مجھے اس کام کی اچھی معلومات ہے۔
﴿قَالَ ﴾ یوسف علیہ السلام نے مصلحت عامہ کی خاطر بادشاہ سے مطالبہ کیا۔ ﴿اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ﴾ ” مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کردیجیے۔“ یعنی مجھے زمین کی پیدا وار، اس کے محاصل کا نگران، محافظ اور منتظم مقرر کردیں ﴿إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ ﴾ ” کیونکہ میں حفاطت بھی کرسکتا ہوں اور اس کام سے واقف بھی ہوں۔“ یعنی جس چیز کا آپ مجھے نگران بنائیں گے میں اس کی حفاظت کروں گا اس میں سے کچھ بھی بے محل استعمال ہو کر ضائع نہیں ہوگا، میں ان محاصل کے داخل خارج کو منضبط کرسکتا ہوں میں ان کے انتظام کی کیفیت کا پورا علم رکھتا ہوں۔ میں یہ بھی خوب جانتا ہوں کہ کسے عطا کرنا ہے کسے محروم رکھنا ہے اور ان میں تصرفات کی پوری طرح دیکھ بھال کرسکتا ہوں۔ یوسف علیہ السلام کی طرف سے اس عہدے کا مطالبہ، عہدے کی حرص کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ نفع عام میں رغبت کی وجہ سے تھا۔ یوسف علیہ السلام اپنے بارے میں کفایت اور حفظ و امانت کے متعلق جو کچھ جانتے تھے وہ لوگ نہیں جانتے تھے۔ بنا بریں یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں زمین کے محاصل کے خزانوں کے انتظام پر مقرر کر دے۔ چنانچہ بادشاہ نے انہیں زمین کے محاصل کے خزانوں کا والی اور منتظم مقرر کردیا۔