أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
ایسے ہی لوگوں پر اللہ کی نوازشیں (233) اور رحمت ہوتی ہے، اور یہی لوگ سیدھی راہ والے ہیں
﴿ۭاُولٰۗیِٕکَ﴾” یہی لوگ ہیں۔“ یعنی یہی لوگ جو صبر مذکور کی صفت سے موصوف ہیں ﴿ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ﴾” ان پر برکتیں ہیں ان کے رب کی طرف سے“ یعنی یہ ان کے احوال کی مدح و ثنا اور تعریف و تعظیم ہے ﴿وَرَحْمَۃٌ ۣ﴾” اور رحمت“ اور ان پر عظیم رحمت ہے۔ یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حصہ ہے کہ اس نے ان کو صبر کی توفیق سے نوازا جس کے ذریعے سے وہ کامل اجر حاصل کرتے ہیں۔ ﴿وَأُولَئِك ھُمُ الْمُہْتَدُوْنَ﴾” اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں“ یعنی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو پہچان لیا اور وہ حق اس مقام پر یہ ہے کہ انہیں یہ معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مملوک ہیں اور انہیں لوٹ کر اسی کے پاس حاضر ہونا ہے اور اس پر وہ عمل پیرا ہوئے اور یہاں عمل، اللہ تعالیٰ کے لیے ان کا صبر کرنا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی واضح ہے کہ جس نے صبر نہ کیا انہیں وہ کچھ حاصل ہوگا جو صبر کرنے والوں کی ضد ہے، یعنی مذمت، عقوبت، گمراہی اور خسارہ (اعاذنا اللہ منھا) پس دونوں قسموں کے درمیان کتنا بڑا فرق ہے،اہل صبر کے لیے کتنی کم مشقت اور بے صبروں کے لیے کتنی بڑی تکلیف ہے۔ یہ دونوں آیتیں نفوس کو مصائب کے نازل ہونے سے پہلے ان مصائب کو خوش دلی سے قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہیں، تاکہ جب مصائب نازل ہوں، تو وہ آسانی سے برداشت ہوسکیں۔ ان آیات میں اس امر کا بھی بیان ہے کہ جب مصیبت نازل ہو تو کس چیز سے اس کا مقابلہ کیا جائے اور وہ ہے صبر۔ اس چیز کا بھی بیان ہے جو صبر پر مددگار ہوتی ہے، نیز یہ کہ صبر کرنے والوں کے لیے کیا اجر و ثواب ہے۔ ان سے بے صبر لوگوں کا حال بھی واضح ہوتا ہے جو صبر کرنے والوں کے حال کے بالکل برعکس ہے۔ ان آیات کریمہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ ابتلاء و امتحان اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تو اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔ نیز ان آیات کریمہ میں مصائب کی مختلف انواع کا بیان ہے۔