وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور شہر کی کچھ عورتوں نے کہا (٢٨) کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کو گناہ پر ابھارتی ہے، اس پر فریفتہ ہوگئی ہے، بیشک ہم اسے کھلی گمراہی میں دیکھ رہے ہیں۔
یعنی اس واقعے کی خبر مشہور ہوگئی اور تمام شہر میں پھیل گئی اور اس بارے میں عورتوں نے چہ میگوئیاں کیں اور عزیز مصر کی بیوی کو ملامت کرنے لگیں اور کہنے لگیں :﴿ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ﴾” عزیز کی بیوی، پھسلاتی ہے اپنے غلام کو اس کے جی سے، اس کا دل اس کی محبت میں فریفتہ ہوگیا ہے“ یہ کام بہت برا ہے یہ عورت ایک انتہائی معزز شخص کی معزز بیوی ہے، بایں ہمہ وہ اپنے غلام پر ڈورے ڈالتی رہی ہے جو زیردست اور اس کی خدمت پر مامور تھا، اس کے باوجود اس عورت کے دل میں اس غلام کی محبت جاگزیں ہوگئی﴿قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ﴾ ” اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی۔“ یعنی یوسف کی محبت عورت کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ گئی ہے۔ یہ محبت کا انتہائی درجہ ہے۔ ﴿إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴾’’یقیناً ہم اس کو کھلی گمراہی میں دیکھتی ہیں۔“ یہ عورت اس حالت کو پہنچ گئی ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں، یہ حالت لوگوں کے ہاں اس کی قدر و قیمت گھٹا دے گی۔ ان عورتوں کا اس قول سے مجرد ملامت اور محض لعن طعن مقصود نہیں تھا، بلکہ یہ ان کی ایک چال تھی۔ وہ درحقیقت یہ کہہ کر جناب یوسف تک رسائی حاصل کرنا چاہتی تھیں جن کی وجہ سے عزیز مصر کی بیوی فتنے میں پڑگئی۔۔۔ تاکہ یہ بات سن کر عزیز مصر کی بیوی غصے میں آئے اور ان کے سامنے آپ کو معذور ظاہر کرنے کے لئے یوسف کا دیدار کروا دے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو مکر قرار دیا۔