وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
اور جس عورت کے گھر (٢٣) میں وہ رہتے تھے اس نے انہیں گناہ پر ابھارا اور دروازے بند کردیئے، اور کہا آجاؤ، اپنی خواہش پوری کرلو، یوسف نے کہا اللہ کی پناہ ! وہ (تیرا شوہر) میرا آقا ہے اس نے مجھے بہت اچھی طرح رکھا ہے، بیشک ظالم لوگ کامیاب نہیں ہوتے۔
یہ عظیم آزمائش اس سے بہت بڑی تھی جو جناب یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائیوں کی طرف سے پیش آئی اور اس پر ان کا صبر کرنا بہت بڑے اجر کا موجب بنا، کیونکہ اس قبیح فعل کے وقوع کے لیے کثیر اسباب کے باوجود انہوں نے صبر کو اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو ان اسباب پر مقدم رکھا۔ اس لیے ان کا یہ صبر اختیاری تھا اور ان کو اپنے بھائیوں کے ہاتھوں جو آزمائش پیش آئی وہاں ان کا صبر اضطراری تھا۔ جیسے مرض اور دیگر تکالیف بندے کے اختیار کے بغیر اسے لاحق ہوتی ہیں جن میں طوعاً یا کرہاً صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں اور آزمائش کا یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے گھر میں نہایت عزت و اکرام کے ساتھ رہ رہے تھے۔ وہ کامل حسن و جمال اور مردانہ وجاہت کے حامل تھے اور یہی چیز ان کی آزمائش کا موجب بنی۔﴿ وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا عَنْ نَّفْسِہٖ﴾’’تو جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔‘‘ یعنی یوسف علیہ السلام جس عورت کے غلام اور اس کے زیر دست تھے اس نے ان پر ڈورے ڈالنے شروع کردئیے۔ وہ ایک ہی گھر میں رہتے تھے جہاں کسی شعور اور احساس کے بغیر اس مکروہ فعل کے مواقع میسر تھے اور اس سے بھی بڑھ کر مصیبت یہ نازل ہوئی کہ﴿ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ﴾ ’’اس نے دروازے بند کردئیے۔‘‘ اور مکان خالی ہوگیا اور دروازوں کو بند کردینے کی بنا پر کسی کے وہاں آنے کا ڈڑ نہ رہا۔ اس عورت نے جناب یوسف کو اپنے ساتھ بدکاری کی دعوت دی۔ ﴿وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ﴾ ’’کہنے لگی، جلدی آؤ۔‘‘ یعنی میرے پاس آؤ اور میرے ساتھ یہ فعل بد سر انجام دو۔ اس کے باوجود کہ یوسف علیہ السلام ایک غریب الوطن شخص تھے اور ایسا شخص اس طرح اپنے غصے اور ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرسکتا جس طرح وہ اپنے وطن میں جان پہچان کے درمیان ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے اور وہ اس عورت کے اسیر تھے اور وہ عورت ان کی آقا تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عورت میں حسن و جمال تھا۔ یوسف علیہ السلام خود جوان اور غیر شادی شدہ تھے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ عورت دھمکی دے رہی تھی کہ اگر یوسف علیہ السلام نے اس کی خواہش پوری نہ کی تو وہ انہیں قید خانے میں بھجوادے گی یا انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کردے گی۔ مگر بایں ہمہ، جناب یوسف علیہ السلام اپنے اندر اس فعل کا قوی داعیہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے رکے رہے، کیونکہ جس فعل کا ارادہ انہوں نے کرلیا تھا اسے اللہ تعالیٰ کی خاطر ترک کردیا اور اللہ تعالیٰ کی مراد کو اپنے نفس کی مراد پر مقدم رکھا جو ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے۔ انہیں اپنے رب کی برہان نظر آئی، یعنی ان کے پاس جو علم و ایمان تھا وہ اس بات کا موجب تھا کہ وہ ہر اس چیز کو ترک کردیں جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے یہ برہان حق ان کو اس بڑے گناہ سے دور رکھنے کی باعث تھی۔﴿ قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ ﴾ ’’انہوں نے کہا، اللہ کی پناہ۔‘‘ یعنی میں اس انتہائی قبیح فعل کے ارتکاب سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ کیونکہ یہ ایسا فعل ہے جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے سے دور کردیتا ہے، نیز یہ فعل اپنے آقا کے حق میں خیانت ہے جس نے مجھے عزت و تکریم سے نوازا۔ پس مجھے یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ میں اس کی بیوی کے ساتھ اس بدترین فعل کے ذریعے سے اس کے احسانات کا بدلہ دوں۔ یہ تو سب سے بڑا ظلم ہے اور ظلم کبھی فلاح نہیں پاتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام نے اس قبیح فعل سے جن امور کو موانع قرار دیاوہ تھے تقوائے الٰہی، اپنے آقا کے حق کی رعایت جس نے ان کو عزت و اکرام سے نوازا تھا اور اپنے آپ کو ظلم کرنے سے بچانا، جس کا مرتکب کبھی فلاح نہیں پاتا۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جناب یوسف علیہ السلام کو ایمان کی برہان حق سے نوازا جو ان کے قلب میں جاگزیں تھا جو ان سے اوامر الٰہی کی اطاعت اور نواہی سے اجتناب کا تقاضا کرتا تھا۔ اس پورے معاملے میں جامع بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام سے بدی اور بے حیائی کو دور کردیا تھا، کیونکہ وہ ان بندوں میں سے تھے جو اپنی عبادات میں اخلاص سے کام لیتے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا اور اپنے لیے خاص کرلی اور ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کردی اور تمام ناپسندیدہ امور کو ان سے دور کر دیا۔ بنا بریں وہ اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق میں سے تھے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام اس عورت کی طرف سے بدی کی سخت ترغیب کے باوجود اس کی خواہش پوری کرنے سے ممتنع رہے اور وہ اس عورت سے اپنے آپ کو چھڑا کر دروازے کی طرف تیزی سے بھاگے، تاکہ وہ بھاگ کر اس فتنہ سے بچ کر نکل جائیں تو وہ عورت بھی ان کے پیچھے بھاگی اور پیچھے سے ان کی قمیص کا دامن پکڑ لیا اور ان کی قمیص پھاڑ ڈالی۔ جب وہ دونوں اس حالت میں دروازے پر پہنچے تو انہوں نے دروازے پر عورت کے خاوند کو موجود پایا اس نے یہ معاملہ دیکھا تو اسے سخت شاق گزرا۔ اس عورت نے فوراً جھوٹ گھڑ لیا اور دعویٰ کیا کہ یوسف اس کے ساتھ زیادتی کرنا چاہتا تھا اور کہنے لگی