قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ
کہا، اے ابا ! ہم جاکر دوڑ کا مقابلہ کرنے لگے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو بھیڑیا اسے کھا گیا (١٧) اور آپ ہم پر یقین نہیں کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں۔
﴿ یٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَہَبْنَا نَسْتَبِقُ﴾ ’’اباجان ! ہم تو دوڑنے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہوگئے۔‘‘ ابا جان ! ہم مقابلہ کرنے لگ گئے تھے یہ مقابلہ یا تو دوڑ کا مقابلہ تھا یا تیر اندازی اور نیزہ بازی کا۔﴿ وَتَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا﴾ ’’اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے۔‘‘ ہم نے سامان کی حفاظت اور یوسف علیہ السلام کے آرام کی خاطر اسے سامان کے پاس چھوڑ دیا﴿ فَاَکَلَہُ الذِّئْبُ ﴾’’تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔‘‘ جب ہم مقابلہ کر رہے تھے تو ہماری عدم موجودگی میں اسے بھیڑیا کھا گیا۔﴿ وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ کُنَّا صٰدِقِیْنَ﴾ ’’اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچے بھی ہوں، باور نہیں کریں گے۔‘‘ یعنی ہم یہ عذر پیش کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ ہماری بات نہیں مانیں گے، کیونکہ آپ کا دل یوسف علیہ السلام کے بارے میں سخت غم زدہ ہے۔ مگر آپ کا ہماری بات کو نہ ماننا اس بات سے مانع نہیں کہ ہم آپ کے سامنے حقیقی عذر پیش کریں اور یہ سب کچھ ان کے اپنے عذر پر تاکید کے لیے تھا۔