وَكُلًّا نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ ۚ وَجَاءَكَ فِي هَٰذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
اور ہم انبیاء کی خبروں میں سے ہر خبر آپ کو اس لیے سناتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ آپ کے دل کو مضبوط (٩٧) کریں اور ان واقعات کے ضمن میں آپ کو حق بات پہنچ گئی، اور مومنوں کے لیے ان میں عبرت اور نصیحت ہے۔
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ میں انبیائے کرام کے حالات بیان فرمائے، تو اب اس میں پنہاں حکمت کا ذکر فرمایا: ﴿ وَکُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ﴾’’اور یہ سب چیز بیان کرتے ہیں ہم آپ کے پاس رسولوں کے احوال سے جس سے مضبوط کریں ہم آپ کے دل کو‘‘ تاکہ وہ مطمئن رہے، اس کو ثبات حاصل ہو اور وہ صبر کرے، جیسے اولو العزم انبیاء و مرسلین نے صبر کیا تھا، کیونکہ نفوس انسانی اقتدا سے مانوس ہوتے ہیں اور اعمال پر ان کو نشاط حاصل ہوتا ہے اور وہ دوسروں کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، حق کے شواہد اور اس کو قائم کرنے والوں کی کثرت کا ذکر کرنے سے حق کی تائید ہوتی ہے۔ ﴿وَجَاۗءَکَ فِیْ ہٰذِہِ﴾’’اور آیا آپ کے پاس اس میں‘‘ یعنی اس سورۃ مقدسہ میں﴿ الْحَقُّ﴾ ’’حق‘‘ آپ کے پاس یقین آگیا اور اس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی شک نہیں۔ اس کا علم، حق کا علم ہے جو نفس کے لیے سب سے بڑی فضیلت ہے۔ ﴿وَمَوْعِظَۃٌ وَّذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اور نصیحت اور یاد دہانی مومنوں کے لیے۔‘‘ یعنی وہ اس سے نصیحت پکڑتے ہیں پس برے کاموں سے باز رہتے ہیں اور محبوب کاموں کو یاد کرتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ اور جو ایمان نہیں رکھتے انہیں نصیحتیں اور مختلف انواع کی یاد دہانیاں کوئی فائدہ نہیں دیتیں۔ بنا بریں فرمایا