وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ
اور بعض لوگ 15 ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ 16 اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور حال یہ ہے کہ وہ 17 (دل) سے مومن نہیں ہیں
معلوم ہونا چاہئے کہ نفاق کا اظہار کرنے اور باطن میں برائی چھپانے کا نام ہے۔ اس تعریف میں نفاق اعتقادی اور نفاق عملی دونوں شامل ہیں۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے اس فرمان میں اس کا ذکر فرمایا : " آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ " [صحيح بخاري، الإيمان، باب علامات المنافق، حديث: 33] ” منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔“ ایک اور روایت میں آتا ہے وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ [حوالہ سابق حدیث: 34]” جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔ “ رہا نفاق اعتقادی جو دائرہ اسلام سے خاج کرنے والا ہے۔ تو یہ نفاق ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کو اس سورت میں اور بعض دیگر سورتوں میں متصف فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد تک نفاق کا وجود نہ تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں اہل ایمان کو غلبے اور فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا۔ پس مدینہ میں رہنے والے وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، ذلیل ٹھہرے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے خوف کی وجہ سے دھوکے کے ساتھ اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا تاکہ ان کا جان و مال محفوظ رہے۔ پس وہ مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے درآں حالیکہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے ان منافقین کے احوال و اوصاف ان کے سامنے واضح کردیے جن کی بنا پر وہ پہچان لیے جاتے تھے تاکہ اہل ایمان ان سے دھوکہ نہ کھا سکیں نیز منافقین اپنے بہت سے فسق و فجور سے باز آجائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ﴾ (التوبة: ٩؍٣٦) ” منافق ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی ایسی سورت نہ نازل کردی جائے جو ان کے دل کی باتوں سے مسلمانوں کو آگاہ کر دے۔ “ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اصل نفاق کو بیان کیا اور فرمایا : ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ﴾ ” بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں“ کیونکہ یہ لوگ اپنی زبان سے ایسی بات کا اظہار کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ﴿ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ ﴾ کہہ کر انہیں جھوٹا قرار دیا۔ اس لئے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جس پر دل اور زبان متفق ہوں، ان منافقین کا یہ اظہار ایمان تو اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کو دھوکہ دینا ہے۔