فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ
پس جو قومیں تم سے پہلے تھیں ان میں ایسے عقلمند لوگ کیوں نہ ہوئے جو انہیں زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے (٩٤) ان میں سے کچھ کے سوا جنہیں ہم نے نجات دی تھی، اور ظالم لوگ اسی عیش و آرام کی راہ پر پڑے رہے جس کے وہ عادی ہوگئے تھے، اور وہ لوگ تھے ہی اہل جرائم۔
جب اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں کی ہلاکت کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا، نیز یہ کہ ان میں سے اکثر وہ لوگ تھے جنہوں نے کتب سماویہ کے ماننے والوں سے انحراف کیا، حتی کہ ان لوگوں نے بھی جو کتب الٰہیہ کو ماننے والے تھے اور یہ چیز اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ گزشتہ ادیان انعدام و اضمحلال کا شکار ہوگئے تو اب ذکر فرمایا کہ گزشتہ قوموں میں ایسے اصحاب خیر کیوں نہ ہوئے جو لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتے رہتے، فساد اور ہلاکت سے روکتے رہتے، تو ان سے کچھ فائدہ حاصل ہوتا جب تک ان کے ادیان باقی رہتے۔ مگر ایسے لوگ بہت ہی قلیل تھے۔ اس سارے معاملے کی غرض و غایت یہ ہے کہ گزشتہ امتوں کے جو تھوڑے لوگوں نے نجات پائی تو انہوں نے انبیاء و مرسلین کی اتباع اور اقامت دین کی وجہ سے نجات پائی نیز یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حجت بن گئے جس کو اس نے ان کے ہاتھوں پر جاری کیا، تاکہ جو ہلاک ہو تو دلیل کی بنا پر ہلاک ہو اور زندہ رہے تو دلیل ہی سے زندہ رہے۔ ﴿وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِیْہِ ﴾’’اور پیچھے پڑے رہے ظالم اسی چیز کے جس میں ان کو عیش ملا۔‘‘ یعنی وہ جن نعمتوں اور آسائشوں سے متمتع ہو رہے تھے انہی کے پیچھے پڑے رہے اور ان چیزوں کے بدلے انہوں نے کچھ اور نہیں چاہا۔﴿ وَکَانُوْا مُجْرِمِیْنَ﴾ ’’اور تھے وہ گناہ گار۔‘‘ یعنی ان نعمتوں اور آسائشوں کے پیچھے پڑ کر انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا، لہٰذا وہ عتاب کے مستحق ٹھہرے اور عذاب نے ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ اس آیت کریمہ میں اس امت کو ترغیب دی گئی ہے کہ ان کے اندر ایسے ہوش مند مصلحین ہونے چاہئیں جو ان امور کی اصلاح کریں جن کو لوگوں نے فاسد کردیا ہے، جو اللہ کے دین کو قائم کرنے والے ہوں، بھٹکے ہوؤں کو ہدایت کی طرف بلاتے رہیں۔ اگر اس راہ میں تکلیفیں آئیں تو اس پر صبر کرتے رہیں اور وہ گمراہی کی تاریکیوں میں لوگوں کو بصیرت کی روشنی دکھاتے رہیں۔ یہ بندہ مومن کا بلند ترین حال ہے جس کی طرف رغبت کرنے والے راغب ہوتے ہیں اور اسی حال کو اختیار کرنے والا مرتبہ امامت پر فائز ہوتا ہے، کیونکہ اس کا عمل خالص رب العالمین کے لیے ہے۔