وَإِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ ۚ إِنَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور بیشک آپ کا رب ہر ایک کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ (٩٠) وہ بیشک ان کے اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے۔
﴿وَاِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّہُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَہُمْ﴾ ’’اور جتنے لوگ ہیں، سب کو پورا دے گا آپ کا رب ان کے اعمال (کا بدلہ)‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کے درمیان ضرور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور ان کو وہی سزا و جزا دے گا جس کے وہ مستحق ہوں گے۔ ﴿اِنَّہٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ﴾ بے شک وہ اس سے جو عمل یہ کرتے ہیں‘‘ اچھے یا برے۔ ﴿خَبِیْرٌ﴾ ’’باخبر ہے۔‘‘ ان کے اعمال میں سے کوئی چھوٹی یا بڑی چیز اس پر مخفی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کی عدم استقامت کا ذکر کرنے کے بعد، جو ان کے اختلاف و افتراق کا باعث تھی، اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ صراط مستقیم پر گامزن رہیں جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا ہے اور اس شریعت کو لائحہ عمل بنائیں جو ان کے لیے مشروع کی گئی ہے اور ان اعتقادات صحیحہ کو اپنا عقیدہ بنائیں جو اللہ تعالیٰ نے وحی کیے ہیں۔ اس سیدھے راستے کو چھوڑ کر دائیں، بائیں ٹیڑھی راہوں پر نہ چلیں اور دائمی طور پر اسی عقیدے اور اسی شریعت پر عمل پیرا رہیں اور سرکشی اختیار نہ کریں، یعنی استقامت کی ان حدود سے تجاوز نہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر فرمائی ہیں۔