سورة ھود - آیت 56

إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَرَبِّكُم ۚ مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

میں نے اس اللہ پر بھروسہ (٤٣) کیا ہے جو میرا اور تم سب کا رب ہے، کوئی بھی جاندار ایسا نہیں ہے جس کی چوٹی اللہ نے نہ پکڑ رکھی ہو، بیشک میرا رب سیدھی راہ پر ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّـهِ ﴾ ” میں نے اللہ پر توکل کیا۔“ یعنی میں نے اپنے تمام معاملے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا۔ ﴿ رَبِّي وَرَبِّكُم ﴾ ” جو میرا اور تمہارا رب ہے“ یعنی وہ تمام موجودات کا خالق ہے، وہی ہے جو ہماری اور تمہاری تدبیر کرتا ہے اور وہی ہے جس نے ہماری تربیت کی ﴿مَّا مِن دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا﴾ ” جو چلنے پھرنے والا ہے وہ اس کو چوٹی سے پکڑے ہوئے ہے۔“ یعنی کوئی جان دار اس کے حکم کے بغیر حرکت کرتا ہے نہ ساکن ہوتا ہے اگر تم سب مل کر مجھے کسی مصیبت میں مبتلا کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ تمہیں مجھ پر مسلط نہ کرے، تو تم اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے اور اگر وہ تمہیں مجھ پر مسلط کر دے تو اس میں اس کی کوئی حکمت پنہاں ہے۔ ﴿إِنَّ رَبِّي عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ ” بے شک میرا رب سیدھے راستے پر ہے“ یعنی میرا رب عدل و انصاف اور حکمت پر ہے وہ اپنی قضا و قدر، شرع و امر، جزا اور اپنے ثواب و عقاب میں قابل ستائش ہے اس کے افعال صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے نہیں جس کی وجہ سے اس کی حمد و ثنا کی جاتی ہے۔