قَالُوا يَا نُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
ان کی قوم کے لوگوں نے کہا، اے نوح ! تم ہم سے جھگڑتے (٢٣) رہے ہو، اور بہت زیادہ جھگڑتے رہے ہو، تو اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کا ہم سے وعدہ کرتے رہے ہو، اب اسے لے ہی آؤ۔
جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت نوح علیہ السلام ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے سے باز نہیں آتے اور وہ نوح علیہ السلام سے اپنا مقصد حاصل نہ کرسکے تو انہوں نے نوح علیہ السلام سے کہا : ﴿ يَا نُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ ” اے نوح ! تو نے ہم سے جھگڑا کیا اور خوب جھگڑا کیا، اب لے آجو تو ہم سے وعدہ کرتا ہے، اگر تو سچا ہے“ وہ کتنے جاہل اور کتنے گمراہ تھے کہ انہوں نے اپنے خیر خواہ نبی سے یہ بات کہی۔ اگر وہ سچے تھے تو انہوں نے یہ کیوں نہ کہا’’اے نوح ! (علیہ السلام) آپ نے ہماری خیر خواہی کی، ہم پر شفقت فرمائی اور ایسے معاملات کی طرف ہمیں دعوت دی ہے جو ہمارے سامنے نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس معاملے کو ہمارے سامنے اچھی طرح واضح کردیں، تاکہ ہم اس کی پیروی کرسکیں ورنہ آپ تو اپنی خیر خواہی پر شکریہ کے مستحق ہیں“۔۔۔۔۔ تو یہ اس شخص کے لئے انصاف پر مبنی جواب ہوتا ہے جس نے ایک ایسے امر کی طرف دعوت دی ہے جو اس پر مخفی رہ گیا ہے۔