سورة ھود - آیت 15

مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جو شخص دنیا کی زندگی (١٣) اور اس کی خوش رنگیاں چاہتا ہے، تو ہم دنیا ہی میں اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیتے ہیں، اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا  ﴾ ” جو چاہتا ہے دنیا کی زندگی اور اس کی رونق“ یعنی جس شخص کا بھی ارادہ، دنیاوی زندگی اور اس کی زیب و زینت ہی کے گرد گھومتا ہے، مثلاً عورتوں اور بیٹوں کے حصول کی خواہش، سونے اور چاندی کے خزانوں کی حرص، نشان زدہ گھوڑوں، مویشیوں اور کھیتیوں کی چاہت، اس نے اپنی رغبت، عمل اور کوشش کو صرف انہی چیزوں پر مرکوز کر رکھا ہے اور وہ آخرت کے گھر کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ایسا شخص کافر کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا، کیونکہ اگر وہ مومن ہوتا تو اس کا ایمان اسے اس بات سے روک دیتا کہ اس کا تمام ارادہ صرف دنیا پر مرکوز رہے، بلکہ اس کا ایمان اور اس کے نیک اعمال، اس کے ارادہ آخرت ہی کے آثار ہیں۔ مگر یہ کافر بد بخت تو گویا صرف دنیا ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ﴿ نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا  ﴾ ” بھگتا دیں گے ہم ان کو ان کے عمل دنیا ہی میں“ یعنی ہم ان کو وہ دنیاوی ثواب عطا کردیتے ہیں جو ان کے لئے لوح محفوظ میں لکھا ہوتا ہے۔ ﴿وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴾ ” اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی۔“ یعنی جو کچھ ان کے لئے مقرر کیا گیا ہوتا ہے اس میں ذرہ بھر کمی نہیں کی جاتی۔ مگر یہ ان کو عطا کی جانے والی نعمتوں کی منتہا ہے۔