سورة ھود - آیت 10

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اگر ہم تنگی رزق کے بعد جو اسے لاحق ہوجاتی ہے، وسعت رزق اور آسائش دیتے ہیں، تو کہنے لگتا ہے کہ اب میری تکلیفوں کا زمانہ ختم ہوگیا، بیشک وہ بڑا اترانے والا، اپنی تعریف کرنے والا بن جاتا ہے،

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اور جب اللہ تعالیٰ اسے تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی ہے، اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے، تو خوش ہوتا ہے اور اتراتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ یہ بھلائی کے پاس ہمیشہ رہے گی اور کہتا ہے ﴿ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ ﴾ ” دور ہوگئیں برائیاں مجھ سے، بے شک وہ تو اترانے والا، شیخی خورہ ہے“ یعنی اسے جو کچھ اس کی خواہشات نفس کے موافق عطا کیا گیا ہے اس پر خوش ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کے بندوں کے سامنے فخر اور تکبر کا اظہار کرتا ہے اور یہ چیز اسے غرور، خود پسندی، مخلوق الہٰی کے ساتھ تکبر کرنے، ان کے ساتھ حقارت سے پیش آنے اور انہیں کم تر سمجھنے پر آمادہ کرتی ہے اور اس سے بڑھ کر اور کون سا عیب ہوسکتا ہے؟