فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
تو آج ہم تیرے جسم کو پانی سے نکال لیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لیے نشان عبرت بن جائے، اور بہت سے لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہوتے ہیں۔
﴿فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ﴾ ” پس آج ہم تیرے بدن کو بچائے دیتے ہیں، تاکہ تو اپنے پچھلوں کے لئے نشانی ہو“ مفسرین کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے دلوں پر فرعون کا رعب اور دہشت چھائی ہوئی تھی۔ گویا انہیں فرعون کے ڈوبنے کا یقین نہیں آرہا تھا اور اس بارے میں انہیں شک تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا کہ وہ فرعون کی لاش کو کسی بلند جگہ پر ڈال دے، تاکہ وہ لوگوں کے لئے نشان عبرت بن جائے۔ ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ ﴾ ” اور اکثر لوگ ہماری آیتوں سے بے خبر ہیں۔“ بنا بریں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں بتکر ار ان کے سامنے آتی ہیں مگر وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے، کیونکہ وہ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے اور وہ شخص جو عقل اور دل بیدار رکھتا ہے اسے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیت ان امور پر سب سے بڑی دلیل ہیں جنہیں رسول لے کر آئے ہیں۔