سورة یونس - آیت 73

فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تو ان لوگوں نے انہیں جھٹلا دیا، پس ہم نے انہیں بچا لیا، اور ان لوگوں کو بھی جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، اور انہیں زمین کا وارث بنا دیا، اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا انہیں ڈبو دیا تو آپ دیکھ لیجیے کہ ان لوگوں کا کیسا انجام ہوا جنہیں پہلے ڈرایا گیا تھا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَكَذَّبُوهُ ﴾ ” پس انہوں نے نوح کو جھٹلایا“ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کو شب و روز اور کھلے چھپے دعوت دی مگر آپ کی دعوت نے ان کے فرار میں اضافہ کے سوا کچھ نہ کیا ﴿فَنَجَّيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ﴾ ” پس ہم نے حکم دیا تھا کہ وہ اسے ہماری آنکھوں کے سامنے بنائیں۔ جب تنور سے پانی ابل پڑا تو ہم نے انھیں حکم دیا: ﴿احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ﴾ (ھود :11؍40) ’’ہر قسم کے جانوروں میں سے جوڑا جوڑا لے لو اور اپنے گھر والوں کو، سوائے اس کے جس کی ہلاکت کا فیصلہ ہو چکا اور اس کو بھی ساتھ لے لینا جو ایمان لا چکا ہو۔‘‘ چنانچہ نوح علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمان کو حکم دیا اس نے زور دار مینہ برسایا اور زمین کے چشمے ابل پڑے اور پانی اس کام کے لیے جمع ہو چکا تھا جس کے بارے میں فیصلہ ہوچکا تھا﴿وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ ﴾(القمر:54؍13) ” اور ہم نے نوح کو ایک ایسی کشتی میں سوار کیا جو تختوں اور میخوں سے بنائی گئی تھی۔“ جو ہماری آنکھوں کے سامنے پانی پر تیر رہی تھی۔ ﴿ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ﴾ ” اور ہم نے انہیں خلیفہ بنایا“ یعنی جھٹلانے والوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے انہیں زمین میں جانشین بنایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی نسل میں برکت ڈالی اور ان کی نسل ہی کو باقی رکھا اور ان کو زمین کے کناروں تک پھیلا دیا۔ ﴿وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنا﴾” اور ہم نے ان کو غرق کردیا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا“ یعنی جنہوں نے واضح کردینے اور دلیل قائم کردینے کے بعد بھی ہماری آیات کی تکذیب کی ﴿فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِينَ﴾ ” پس دیکھو ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جن کو ڈرایا گیا تھا۔“ ان کا انجام رسوا کن ہلاکت تھی اور مسلسل لعنت تھی جو ہر زمانے میں ان کا پیچھا کرتی رہی، آپ ان کے بارے میں صرف حرف ملامت ہی سنیں گے اور ان کے بارے میں برائی اور مذمت کے سوا کچھ نہیں دیکھیں گے۔۔۔۔۔ پس ان جھٹلانے والوں کو اس عذاب سے ڈرنا چاہئے جو انبیاء و رسل کو جھٹلانے والی ان قوموں پر ہلاکت انگیز اور رسوا کن عذاب نازل ہوا تھا۔