فَذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ
پس وہی اللہ تمہارا حقیقی پالنہار ہے تو اب حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کیا رہ جاتا ہے، پھر تمہیں حق سے کدھر پھیرا جا رہا ہے۔
﴿فَذَٰلِكُمُ﴾ ” پس یہی“ یعنی وہ ہستی، جس نے اپنے مذکورہ اوصاف بیان کیے۔ ﴿اللَّـهُ رَبُّكُمُ ﴾ ”اللہ ہے، تمہارا رب“ وہ معبود محمود ہے جو مختلف نعمتوں کے ذریعے سے تمام مخلوقات کا مربی ہے۔ ﴿الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ﴾ ” اور وہ حق ہے، پس حق کے بعد سوائے گمراہی کے کیا ہے؟“ یعنی وہ تمہارا پروردگار برحق ہے، حق کے بعد، گمراہی کے سوا کیا باقی رہ جاتا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ اکیلا ہی تمام کائنات کا خالق اور اس کی تدبیر کرتا ہے، بندوں کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اسی کی طرف سے عطا کی ہوئی ہے۔ تمام بھلائیاں وہی لاتا ہے اور تمام برائیوں کو وہی دور کرتا ہے، وہ اسمائے حسنیٰ سے موسوم، صفات کاملہ سے موصوف اور جلال و اکرام کا مالک ہے۔ ﴿فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ﴾ ” پس تم کہاں پھیرے جاتے ہو“ یعنی جس ہستی کے یہ اوصاف ہیں اسے چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کی طرف کیوں کر پھیرے جا رہے ہو جن کا وجود عدم کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جو خود اپنی ذات کے لئے کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور زندہ کرنے پر قادر نہیں۔ جن کا اقتدار میں کسی بھی لحاظ سے ذرہ بھر بھی حصہ اور شراکت نہیں۔ وہ اس کے پاس، اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتیں۔ پس ہلاکت ہے اس کے لئے جو ایسوں کو شریک ٹھہراتا ہے اور برائی ہے اس کے لئے جو اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے۔ یقیناً اپنے دین سے محروم ہونے کے بعد وہ اپنی عقلوں سے بھی محروم ہوگئے، بلکہ وہ اپنی دنیا اور آخرت بھی کھو بیٹھے۔