سورة یونس - آیت 22

هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتی (٢١) میں ہوتے ہو، اور وہ کشتیاں موافق ہواؤں کے سہارے انہیں لے کر چل رہی ہوتی ہیں اور وہ ان کی رفتار سے خوش ہوتے ہیں کہ اچانک ایک تیز ہوا ان کشتیوں کو آلیتی ہے ور ہر چہار جانب سے موج ان لوگوں کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے، اور انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ وہ مکمل طور پر پھنس گئے ہیں، تو وہ اللہ کو اس کے لیے مکمل طور پر بندگی کو خالص کرتے ہوئے پکارتے ہیں کہ اے اللہ ! اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم تیرے شکر گزار بندوں میں سے ہوجائیں گے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کے بارے میں ایک عام قاعدہ بیان فرمایا کہ تکلیف کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور تنگ دستی کے بعد فراخی کے وقت ان کا کیا حال ہوتا ہے، تو اب ان کی اس حالت کا ذکر فرماتا ہے جو اس کی تائید کرتی ہے۔ یہ ان کی وہ حالت ہے جب وہ سمندر کے اندر سفر کرتے ہیں اور سمندر سخت جوش میں ہوتا ہے اور ان کو اس کے انجام کا خوف ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ ” وہی ہے جو تمہیں چلاتا ہے خشکی اور سمند میں“ یعنی ان اسباب کے ذریعے سے جو اس نے تمہیں مہیا کئے ہیں اور ان کی طرف تمہاری رہنمائی فرمائی ہے ﴿حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ ﴾ ” یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں بیٹھتے ہو“ یعنی بحری جہازوں میں ﴿وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ﴾ ‘‘‘ اور لے کر چلیں وہ ان کو اچھی ہوا سے“ یعنی کے ہوا جو ان کی خواہش کے موافق بغیر کسی مشقت اور گھبراہٹ کے ان جہازوں کو چلاتی ہے ﴿وَفَرِحُوا بِهَا﴾ ” اور وہ خوش ہوں ساتھ ان کے“ اور ان ہواؤں پر نہایت مطمئن ہوتے ہیں اور وہ اسی حال میں ہوتے ہیں کہ ﴿جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ﴾ ” اچانک زناٹے کی ہوا چل پڑتی ہے“ یعنی کشتیوں پر سخت ہو آئی ﴿وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ﴾ ” اور آئی ان پر موج ہر جگہ سے اور انہوں نے جا ن لیا کہ وہ گھر گئے“ یعنی انہیں یقین ہوجاتا ہے کہ اب ان کی ہلاکت یقینی ہے، تب اس وقت مخلوق سے ان کے تمام تعلق منقطع ہوجاتے ہیں اور انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اس مصیبت اور سختی سے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا، تب اس وقت ﴿دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ ” وہ دین کو اللہ کیلئے خالص کر کے اسی کو پکارتے ہیں“ اور الزامی طور پر اپنے آپ سے وعدہ کرتے ہیں، چنانچہ کہتے ہیں ﴿ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾ ”اگر تو ہمیں اس مصیبت سے بچا لے تو ہم تیرے شکر گزار ہوجائیں گے۔ “