وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور جب انسان کو تکلیف (١٢) پہنچتی ہے تو اپنے پہلو کے بل یا بیٹھے یا کھڑے ہر حال میں ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو اس طرح گزر جاتا ہے کہ گویا اس نے اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جو اسے پہنچی تھی ہمیں پکارا ہی نہیں تھا، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوبصورت بنا دیے جاتے ہیں۔
اس میں انسان کی فطرت کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ جب اسے کسی مرض یا مصیبت کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو خوب دعائیں کرتا ہے اور وہ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے، اپنی دعاؤں میں گڑگڑاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر دے۔ ﴿فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ﴾ ” پس جب ہم اس سے اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو وہ (یوں) چلا جاتا ہے گویا کہ اس نے ہمیں کسی تکلیف کے پہنچنے پر پکارا ہی نہیں“ یعنی اپنے رب سے رو گردانی کرتے ہوئے غفلت میں مستغرق رہتا ہے گویا کہ اسے کوئی تکلیف ہی نہیں آئی، جسے اللہ تعالیٰ نے دور کیا ہو۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا ظلم ہے کہ انسان اپنی غرض پوری کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور جب اللہ تعالیٰ اس کی یہ غرض پوری کر دے تو پھر وہ اپنے رب کے حقوق کی طرف نہ دیکھے، گویا کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا کوئی حق ہی نہیں۔ یہ شیطان کا آراستہ کرنا ہے۔ شیطان ان تمام چیزوں کو مزین کرتا ہے جو انسانی عقل و فطرت کے مطابق انتہائی بری اور قبیح ہیں۔ ﴿كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ﴾ ” اسی طرح خوش نمابنا دیے گئے ہیں بے باک لوگوں کے لئے“ یعنی ان لوگوں کے لئے جو حدود سے تجاوز کرتے ہیں ﴿مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” جو عمل وہ کرتے تھے۔ “