هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَٰلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
وہی ہے جس نے آفتاب (٨) کو چمکتا ہوا اور چاند کو روشن بنایا، اور چاند کی منزلیں مقرر کردیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور (مہینہ اور دن کا) حساب جان سکو، اللہ تعالیٰ نے انہیں مخصوص فائدوں کے لیے پیدا کیا ہے، وہ اپنی آیتیں علم والوں کے لیے بیان کرتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ربوبیت اور الوہیت کومتحقق کرنے کے بعد اپنے اسماء و صفات کے کمال پر عقلی اور آفاقی دلائل بیان کرتا ہے جو تمام آفاق، یعنی سورج،چاند، زمین و آسمان اور کائنات میں پھیلی ہوئی تمام مخلوقات پر محیط ہیں اور آگاہ فرماتا ہے کہ یہ نشانیاں ان لوگوں کے لئے ہیں ﴿لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴾ ” جو علم رکھتے ہیں“ اور ان کے لئے ہیں جو تقویٰ کا التزام کرتے ہیں، کیونکہ علم دلالت کی معرفت اور انتہائی مناسب طریقے سے دلائل کے استنباط کی کیفیت کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ تقویٰ قلب میں بھلائی کی طرف رغبت اور برائی سے خوف کو جنم دیتا ہے۔ یہ دونوں دلائل و براہین اور علم و یقین سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس تمام بحث کا حاصل یہ ہے کہ ان مخلوقات کی، اس وصف کے ساتھ مجرد تخلیق اس کی کامل قدرت، اس کے علم، اس کی حیات اور اس کی قیومیت پر دلالت کرتی ہے۔ اس کائنات میں جاری احکام، اس کا اتقان اور اس کا حسن و ابداع اللہ تعالیٰ کی حکمت، اس کے حسن تخلیق اور وسعت علم پر دلالت کرتے ہیں۔ اس کائنات میں پھیلے ہوئے منافع و مصالح۔۔۔۔ مثلاً سورج کی روشنی اور چاند کے نور سے جو ضروری فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت، اپنے بندوں پر اس کی عنایت، اس کی لامحدود نوازش اور اس کے احسان پر دلالت کرتے ہیں۔ اس کائنات کی خصوصیات اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادہ نافذہ پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا معبود، محبوب محمود، جلال و اکرام اور عظیم اوصاف کامالک ہے، رغبت و رہبت کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ تمام امور میں مخلوقات و مربوبات، جو بذات خود اللہ کی محتاج ہیں، کی بجائے اپنی دعا میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارا جائے۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور و فکر کرنے اور ان کو عبرت کی نگاہ سے دیکھنے کی ترغیب ہے۔ اس لئے کہ اس سے بصیرت بڑھتی ہے، ایمان و عقل میں اضافہ ہوتا ہے اور ملکہ راسخ ہوتا ہے اور ان میں غور و فکر نہ کرنے سے ا للہ کے احکام سے بے پروائی، ایمان میں زیادتی کا راستہ بند اور قلب و ذہن میں جمود طاری ہوتا ہے۔