إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
بیشک تمہارا رب وہ اللہ (٣) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہو کر تمام امور کی دیکھ بھال کرنے لگا، اس کی جناب میں کوئی سفارشی (٤) نہیں، الا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد کوئی سفارش کرے، وہی اللہ تمہارا رب (٥) ہے، پس تم اسی کی عبادت کرو، کیا تم ان باتوں سے نصیحت حاصل نہیں کرتے ہو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ربوبیت، الوہیت اور عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ﴾ “ بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا“ اس کے باوجود کہ وہ زمین اور آسمان کو ایک لحظہ میں پیدا کرنے پر قادر ہے۔ مگر حکمت الٰہی انہیں اسی طرح تخلیق کرنے میں تھی وہ اپنے افعال میں بہت نرم اور مہربان ہے۔ یہ اس کی حکمت ہے کہ اس نے کائنات کو حق کے ساتھ اور حق کے لئے پیدا کیا، تاکہ اس کے اسماء و صفات کے ذریعے سے اس کی معرفت حاصل ہو نیز یہ کہ وہ اکیلا عبادت کا مستحق ہے۔ ﴿ثُمَّ﴾ ” پھر“ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بعد ﴿اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ﴾ ” وہ مستوی ہوا عرش پر۔“ وہ استواء ایسا ہے جو اس کی عظمت کے لائق ہے ﴿يُدَبِّرُ الْأَمْرَ﴾ ” وہ معاملے کا انتظام کرتا ہے۔“ یعنی وہ عالم علوی اور عالم سفلی کے تمام معاملات کی تدبیر کرتا ہے۔ موت دینا، زندہ کرنا، رزق نازل کرنا، لوگوں کے درمیان گردش ایام، ضرر رسیدہ لوگوں سے تکلیف دور کرنا اور سوال کرنے والوں کی ضرورت پوری کرنا۔ پس مختلف انواع کی تمام تدابیر اسی کی طرف سے نازل ہوتی ہیں اور اسی کی طرف بلند ہوتی ہیں۔ تمام کائنات اس کے غلبہ کے سامنے مطیع اور اس کی عظمت اور طاقت کے سامنے سرافگندہ ہے۔ ﴿مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ﴾ ” کوئی سفارش نہیں کرسکتا، مگر اس کی اجازت کے بعد“ جب تک اللہ تعالیٰ اجازت نہ دے کوئی شخص۔۔۔۔ خواہ وہ مخلوق میں سے افضل ہستی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے حضور کسی کی سفارش کے لئے آگے نہیں بڑگے گا اور وہ صرف اسی کے لئے سفارش کرے گا جس کے لئے اللہ تعالیٰ خود پسند کرے گا اور وہ صرف انہی کو پسند کرے گا جو اہل اخلاص اور اہل توحید ہوں گے۔ ﴿ذَٰلِكُمُ ﴾ “ یہی“ وہ ہستی جس کی یہ شان ہے ﴿ اللَّـهُ رَبُّكُمْ﴾ ” اللہ ہے، تمہارا رب“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو اوصاف الوہیت اور صفات کمال کی جامع، اوصاف ربوبیت اور صفات افعال کی جامع ہے۔ ﴿ فَاعْبُدُوهُ﴾ ” پس تم اسی کی بندگی کرو“ یعنی عبودیت کی وہ تمام اقسام جن کو بجا لانے پر تم قادر ہو، صرف اس اکیلے کے لئے مخصوص کرو۔ ﴿ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ﴾ ” کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے“ کیا تم ان دلائل سے نصیحت حاصل نہیں کرتے جو اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ واحد معبود حمد و ثناء کا مستحق اور جلال و اکرام کا مالک ہے۔