سورة التوبہ - آیت 126

أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا وہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہر سال ایک یا دو بار کسی نہ کسی آزمائش (١٠٠) میں مبتلا کئے جاتے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ عبرت حاصل کرتے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالی اس بات پر کہ وہ کفر و نفاق پر جمے ہوئے ہیں ان کو زجرو توبیخ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ﴾ ” کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ آزمائے جاتے ہیں ہر برس ایک یا دو مرتبہ“ یعنی جو ان کو مصیبت پہنچتی ہے یا امراض لاحق ہوتے ہیں یا او امر الٰہیہ کے ذریعے سے ان کی آزمائش کی جاتی ہے ﴿ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ﴾ “ پھر بھی وہ توبہ نہیں کرتے۔“ یعنی ان برائیوں سے توبہ نہیں کرتے جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں ﴿وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾ ” اور نہ وہ نصیحت پکڑتے ہیں“ یعنی کیا چیز انہیں فائدہ دیتی ہے کہ وہ اسے اختیار کریں اور کیا چیز نقصان دیتی ہے کہ وہ اس کو ترک کردیں۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ۔۔۔۔ جیسا کہ تمام قوموں میں اس کی عادت ہے۔۔۔۔ ان کو تنگ دستی، فراخی اور او امر و نواہی کے ذریعے سے ان کو آزماتا ہے، تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں مگر وہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان کو ٹٹولتا اور اس کی حفاظت کرتا رہے، اس کی تجدید اور نشونما کرتا رہے، تاکہ اس کا ایمان ترقی کی منازل کی طرف گامزن رہے۔