سورة التوبہ - آیت 118

وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ان تینوں پر بھی (توجہ فرمائی) جو پیچھے رہ گئے گئے، یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی، اور خود ان کی جانیں ان پر تنگ ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ سے بھاگ کر اس کی جناب کے علاوہ دنیا میں اور کوئی جائے پناہ نہیں ہے، تو اللہ نے ان کی طرف توجہ فرمائی تاکہ وہ توبہ کریں، بیشک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا﴾ ” اور ان تینوں پر پھر (اللہ مہربان ہوا) جن کا معاملہ ملتوی کیا گیا تھا۔“ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان تین حضرات کی توبہ قبول کرلی جو اس غزوہ میں جہاد کے لئے مسلمانوں کے ساتھ نہ نکل سکے تھے۔ وہ تھے کعب بن مالک اور ان کے ساتھی (ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم ) ان کا قصہ صحاح اور سنن میں مشہور و معروف ہے۔ [صحيح بخاري، كتاب التفسير، باب ﴿و علي الثلاثة .... الخ﴾ حديث: 4677] ﴿حَتَّىٰ إِذَا﴾ یہاں تک کہ جب وہ بہت زیادہ غم زدہ ہوگئے ﴿وَ ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ﴾ ” اور زمین باوجود فراخی کے ان پر تنگ ہوگئی“ یعنی اپنی وسعت اور کشادگی کے باوجود ﴿وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ ﴾ ” اور تنگ ہوگئیں ان پر ان کی جانیں“ جو کہ انہیں ہر چیز سے زیادہ محبوب تھیں۔ پس کشادہ فضا ان کے لئے تنگ ہوگئی اور ہر محبوب چیز ان کے لئے تنگ ہوگئی جو عادۃً کبھی ان کے لئے تنگ نہ تھی۔ یہ صورت حال صرف اسی وقت ہوتی ہے جب کوئی انتہائی گھبراہٹ والا معاملہ ہو جو شدت اور مشقت میں اس حد تک پہنچ گیا ہو جس کی تعبیر ممکن نہ ہو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے۔ ﴿وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ﴾ ” اور وہ سمجھ گئے کہ کہیں پناہ نہیں اللہ سے مگر اسی کی طرف“ یعنی انہیں یقین ہوگیا اور اپنے حال کے ذریعے سے ان کو معلوم ہوگیا کہ ان سختیوں سے نجات دینے والا اور جس کے پاس پناہ لی جائے اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا کوئی نہیں، تب مخلوق کے ساتھ ان کا تعلق منقطع ہوگیا اور انہوں نے اپنے رب کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے بھاگ کر اللہ ہی کے پاس پناہ لی۔ وہ پچاس راتوں تک اس شدت اور کیفیت میں مبتلا رہے۔ ﴿ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ﴾ ” پھر مہربان ہوا ان پر“ یعنی اللہ نے ان کو توبہ کی اجازت دے دی اور ان کو توبہ کی توفیق سے نواز دیا ﴿ لِيَتُوبُوا﴾ ” تاکہ وہ توبہ کریں۔“ تاکہ ان کی طرف سے توبہ واقع ہو اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لے ﴿إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ﴾ ” بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ بہت کثرت سے توبہ قبول کرتا ہے، بہت کثرت سے معاف کرتا ہے اور بہت کثرت سے لغزشوں اور نقائص کو بخش دیتا ہے۔ ﴿ الرَّحِيمُ﴾ عظیم رحمت اس کا وصف ہے جو ہر آن، ہر وقت اور ہر لحظہ اس کے بندوں پر نازل ہوتی رہتی ہے جس سے ان کی دنیاوی اور دینی امور سر انجام پاتے ہیں۔ (١) ان آیات کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کی توبہ قبول کرنا، جلیل ترین مقصد اور بلند ترین منزل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے توبہ کو اپنے خاص بندوں کا مقام و منزل قرار دیا ہے۔ جب بندے ایسے اعمال کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور جن سے وہ راضی ہے، تو اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی منزل سے نوازتا ہے۔ (٢) اللہ تبارک و تعالیٰ کا لطف و کرم ان پر سایہ کناں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہلا دینے والے مصائب کے وقت ان کے ایمان میں ثابت قدم اور استقامت عطا کرتا ہے۔ (٣) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ نفس پر شاق گزرنے والی عبادت ایسی فضیلت کی حامل ہوتی ہے جو کسی اور عبادت میں نہیں ہوتی۔ عبادت میں مشقت جتنی زیادہ ہوگی اجر اتنا ہی بڑا ہوگا۔ (٤) بندے کی اپنے گناہ پر ندامت اور تاسف کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ جو کوئی گناہ کی پرواہ نہیں کرتا اور گناہ کے ارتکاب پر کوئی حرج محسوس نہیں کرتا، تو اس کی توبہ عیب دار اور کھوکھلی ہے اگرچہ وہ اس زعم میں مبتلاہوتا ہے کہ اس کی توبہ مقبول ہے۔ (٥)جب قلب مخلوق سے کٹ کر کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ متعلق ہوجائے، تو یہ بھلائی اور شدت (تنگی) کے زوال کی علامت ہے۔ (٦)ان تینوں اصحاب پر یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے ان کوکسی ایسے وصف سے موصوف نہیں کیا جو ان کے لئے عار کا باعث ہو، چنانچہ فرمایا : ﴿ خُلِّفُوا﴾ ” جو پیچھے چھوڑ دیئے گئے“ اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل ایمان ان کو پیچھے چھوڑ گئے تھے یا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کو ان لوگوں سے پیچھے چھوڑ دیا گیا، جن کو ان کی معذرت کے قبول یارد کے سلسلے میں علیحدہ کردیا گیا تھا اور یہ ان کا پیچھے رہ جانا بھلائی سے روگردانی کی بناء پر نہ تھا، اسی لئے ﴿تَخَلَّفُوا﴾ کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ (٧) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو صدق سے نوازا اور اسی لئے ان کی اقتدار کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا :