لَّقَد تَّابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اللہ نے نبی اور مہاجرین اور ان انصار کی طرف توجہ فرمائی جنہوں نے مشکل وقت (٩٤) میں ان کی پیروی کی، جبکہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کجی آرہی تھی، پھر اللہ نے ان پر بھی توجہ فرمائی، بیشک وہ ان پر بہت ہی شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان ہے کہ ﴿تَّابَ اللَّـهُ عَلَى النَّبِيِّ﴾ ” مہربان ہوا وہ اپنے پیغمبر پر“ ﴿وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ﴾ ” اور مہاجرین اور انصار پر“ پس ان کی تمام لغزشیں معاف کردیں’ انہیں بے شمار نیکیاں عطا کیں اور انہیں بلند ترین مراتب پر فائز فرمایا اور اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے نہایت مشکل اور مشقت سے لبریز عمل کئے، اسی لئے فرمایا: ﴿لَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ﴾ ” جو ساتھ رہے اس پیغمبر کے مشکل کی گھڑی میں“ یعنی وہ غزوہ تبوک میں دشمن کے ساتھ جنگ کے لئے آپ کے ساتھ نکلے، سخت گرمی کا موسم تھا، سامان سفر اور سواریوں وغیرہ کی قلت اور دشمن کی افرادی تعداد زیادہ تھی۔ یہ ایسے حالات تھے جو لوگوں کے پیچھے رہنے کا باعث بنے ہیں۔ پس اس صورت میں وہ اللہ تعالیٰ سے مدد کے طالب گار ہوئے اور اس پر قائم رہے ﴿مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ﴾ ” بعد اس کے کہ قریب تھا کہ دل پھرجائیں ان میں سے کچھ لوگوں کے“ یعنی ان کے دل آرام و راحت اور سکون کی طرف مائل تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی عطا کی، ان کی تائید کی اور ان کو قوت سے نوازا اور زیغ قلب (دل کے پھر جانے) سے مراد ہے قلب کا صراط مستقیم سے انحراف کرنا۔ اگر یہ انحراف اصول دین میں ہو تو یہ کفر ہے اور اگر انحراف شرائع کے احکام میں ہو تو یہ انحراف اس حکم شریعت کے مطابق ہوگا جس سے انحراف کیا گیا ہے۔ یہ انحراف یا تو اس حکم شریعت پر عمل کی کوتاہی کے سبب سے ہوتا ہے یا اس شرعی حکم پر غیر شرعی طریقے سے عمل کرنے کے باعث ہوتا ہے فرمایا : ﴿ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ﴾ ” پھر وہ مہربان ہوا ان پر“ یعنی اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ ﴿إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” بے شک وہ ان پر نہایت شفقت کرنے والا مہربان ہے۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و رافت ہے کہ اس نے ان کو توبہ کی توفیق سے نوازا پھر ان کی توبہ کو قبول فرمایا اور ان کو اس توبہ پر ثابت قدم رکھا۔