سورة التوبہ - آیت 101

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ کے اردگرد جو دیہاتی لوگ ہیں ان میں منافقین (٧٩) پائے جاتے ہیں اور اہل مدینہ میں بھی کچھ ایسے لوگ ہیں کہ نفاق جن کی سرشت میں داخل ہوگیا ہے آپ انہیں نہیں جانتے ہیں، انہیں ہم جانتے ہیں انہیں ہم دوبارہ عذاب دیں گے، پھر وہ عذاب عظیم کی طرف بھیج دئے جائیں گے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ﴾ ” اور تمہارے گرد رہنے والے گنواروں میں سے بعض منافق ہیں اور بعض مدینے والوں میں سے“ یعنی مدینہ میں بھی منافقین موجود ہیں ﴿مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ﴾ ” اڑے ہوئے ہیں وہ نفاق پر“ یعنی نفاق کے عادی ہیں اور نفاق میں ان کی سرکشی بڑھتی جا رہی ہے ﴿ لَا تَعْلَمُهُمْ ﴾ ” آپ ان کو نہیں جانتے۔“ یعنی آپ ان کے اعیان کو نہیں جانتے کہ آپ ان کو سزا دے سکیں یا ان کے نفاق کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرسکیں۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت پنہاں ہے۔ ﴿نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ﴾ ” ہم ان کو جانتے ہیں، ہم ان کو دو مرتبہ عذاب دیں گے۔“ اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ ”تثنیہ“ کا لفظ اپنے حقیقی باب (معنی) میں استعمال ہوا ہو، تب اس سے مراد دنیا کا عذاب اور آخرت کا عذاب ہے۔ پس دنیا میں اہل ایمان کی فتح و نصرت سے ان کو جو غم و ہموم اور سخت ناگواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ دنیا کا عذاب ہے اور آخرت میں ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے اور یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ ہم ان کو نہایت سخت عذاب دیں گے، ان کو دگنا عذاب دیں گے اور بار بار عذاب دیں گے۔