سورة التوبہ - آیت 91

لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کمزوروں (69) کے لیے گناہ کی بات نہیں، اور نہ مریضوں کے لیے اور نہ ان کے لیے جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں، اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے مخلص اور خیر خواہ ہوں، نیک لوگوں پر الزام لگانے کی کوئی وجہ نہیں اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ نے معذور لوگوں کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے ﴿ لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ  ﴾ ” نہیں ہے (حرج) کمزوروں پر“ جو کمزور جسم اور کمزور نظر والے ہیں جو جہاد کے لئے باہر نکلنے اور دشمن سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ﴿وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ ﴾ ” اور نہ بیماروں پر“ یہ آیت ان تمام امراض کو شامل ہے جن کی بنا پر مریض جہاد اور قتال کے لئے باہر نہیں نکل سکتا، مثلاً لنگڑا پن، اندھا پن، بخار، نمونیہ اور فالج وغیرہ ﴿وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ ﴾ ” اور نہ ان لوگوں پر جن کے پاس خرچ کرنے کو نہیں ہے“ یعنی ان کے پاس زاد راہ ہے نہ سواری جس کے ذریعے سے منزل مطلوب پر پہنچ سکیں۔ پس ان مذکورہ لوگوں کے لئے کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیر خواہی رکھتے ہوں، صادق الایمان ہوں، ان کی نیت اور ان کا عزم یہ ہو کہ اگر وہ جہاد پر قادر ہوئے تو وہ ضرور جہاد کریں گے اور ایسے کام کرتے ہوں جن پر وہ قدرت رکھتے ہیں مثلاً لوگوں کو جہاد کی ترغیب دینا اور جہاد کے لئے ان کا حوصلہ بڑھانا ﴿مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ  ﴾ ” نیکی کرنے والوں پر کوئی راستہ نہیں“ یعنی ایسا راستہ جس سے نیکی کرنے والوں کو کوئی ضرر پہنچے، کیونکہ انہوں نے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بھلائی سے کام لے کر ملامت کو ساقط کردیا۔ بندہ مومن جس چیز پر قادر ہے جب اس میں اچھی کارکردگی دکھاتا ہے تو اس سے وہ امور ساقط ہوجاتے ہیں جن پر وہ قادر نہیں۔ اس آیت کریمہ سے اس شرعی قاعدہ پر استدلال کیا جاتا ہے کہ جو کوئی کسی دوسرے شخص پر اس کی جان اور مال وغیرہ میں احسان کرتا ہے، پھر اس احسان کے نتیجے میں کوئی نقصان یا اتلاف واقع ہوجاتا ہے، تو اس احسان کرنے والے پر کوئی ضمان نہیں۔ کیونکہ وہ محسن ہے اور محسن پر کوئی گرفت نہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ غیر محسن۔۔۔ جو کام کو عمدہ طریقے سے انجام نہ دے اس کی حیثیت کوتاہی کرنے والے کی ہوگی، اس لئے اس پر ضمان عائد کیا جائے گا۔ ﴿وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ  ﴾ ” اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی وسیع مغفرت اور بے پایاں رحمت ہی ہے کہ اس نے قدرت نہ رکھنے والے بے بس لوگوں کو معاف کردیا ہے اور ان کی نیت کے مطابق ان کو وہ ثواب عطا کرتا ہے جو وہ قدرت رکھنے والوں کو عطا کرتا ہے۔