سورة التوبہ - آیت 77

فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تو اللہ نے بطور سزا ان کے دلوں میں اس دن تک کے لیے نفاق پیدا کردیا جب وہ اس سے ملیں گے، اور یہ اس سبب سے ہوا کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا اس کی خلاف ورزی کی تھی اور جھوٹ بولتے تھے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ﴾ ” پس بطور سزا کردیا نفاق ان کے دلوں میں“ یعنی ہمیشہ رہنے والا نفاق۔ ﴿إِلَىٰ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّـهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ﴾ ” جس دن تک کہ وہ اس سے ملیں گے، اس وجہ سے کہ انہوں نے خلاف کیا اللہ سے جو وعدہ اس سے کیا تھا اور اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔“ پس بندہ مومن کو اس برے وصف سے بچنا چاہئے کہ اگر اس کو اس کا مقصد حاصل ہوگیا تو وہ فلاں کام کرے گا اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کو پورا نہ کرے۔ اس لئے بسا اوقات اللہ تعالیٰ نفاق کے ذریعے سے اس کو سزا دیتا ہے جیسا کہ ان لوگوں کو سزا دی۔ ایک صحیح حدیث میں، جو کہ صحین میں ثابت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب عہد کرے تو بد عہدی سے کام لے اور وعدہ کرے تو اسے پورا نہ کرے۔“ [صحيح بخاري، كتاب الإيمان، باب علامات المنافق، حديث: 33] پس یہ منافق جس نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے فضل سے نوازا تو وہ ضرور صدقہ کرے گا اور نیک بن جائے گا۔ پس اس نے اپنی بات میں جھوٹ بولا، عہد کی بدعہدی کی اور وعدہ کر کے پورا نہ کیا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو یہ وعید سنائی جن سے یہ کام صادر ہوا چنانچہ فرمایا