سورة التوبہ - آیت 72

وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو جنتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے، اور جنات عدن میں عمدہ مکانات کا وعدہ کیا ہے، اور اللہ کی خوشنودی سب سے بڑھ کر ہوگی، یہی عظیم کامیابی ہوگی

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اس ثواب کا ذکر فرماتا ہے جو اس نے اہل ایمان کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ فرمایا ﴿ وَعَدَ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ﴾’’وعدہ دیا ہے اللہ نے ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو باغوں کا کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں“ ان جنتوں میں ہر نعمت اور ہر فرحت جمع ہے اور وہ تمام تکلیف دہ چیزوں سے بالکل خالی ہیں ان کے محلات، گھروں اور درختوں کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں جو خوبصورت باغات کو سیراب کرتی ہیں۔ ان جنتوں میں جو بھلائیاں ہیں انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ﴿خَالِدِينَ فِيهَا﴾ ” اس میں ہمیشہ رہیں گے“ اور وہ کسی اور جگہ منتقل ہونا نہ چاہیں گے۔ ﴿وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ﴾ ” اور ستھرے مکانوں کا، ہمیشہ کے باغوں میں“ ان مسکنوں کو آراستہ اور خوبصورت بنا کر اللہ تعالیٰ کے متقی بندوں کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ جنت کے نظارے، اس کی منازل اور آرام گاہیں بہت خوبصورت ہیں۔ بلند مرتبہ مساکن کے تمام آلات اور ساز و سامان ان کے اندر مہیا کئے گئے ہیں۔ تمنا کرنے والے اس سے بڑھ کر کسی چیز کی تمنا نہیں کرسکتے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسے بالا خانے تیار کر رکھے ہیں جو انتہائی خوبصورت اور پاک صاف ہیں۔ جن کے اندر سے باہر کا نظارہ کیا جا سکے گا اور باہر سے اندر دیکھا جا سکے گا۔ پس یہ خوبصورت مساکن اس لائق ہیں کہ نفس ان میں سکون حاصل کریں’ دل ان کی طرف کھینچتے چلے آئیں اور ارواح ان کی مشتاق ہوں، اس لئے کہ وہ جنت عدن میں مقیم ہوں گے اور یہ ایسی جگہ ہے جہاں سے وہ کوچ کرنا اور کسی دوسری جگہ منتقل ہونا نہیں چاہیں گے۔ ﴿ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ ﴾ ” اور اللہ کی رضا مندی“ جو وہ اہل جنت پر نازل فرمائے گا۔ ﴿أَكْبَرُ﴾ ” سب سے بڑی ہوگی“ یعنی ان تمام نعمتوں سے جو ان کو حاصل ہوں گی۔ کیونکہ ان کو حاصل ہونے والی تمام نعمتیں ان کے رب کے دیدار اور اس کی رضا کے بغیر اچھی نہ لگیں گی اور یہ وہ غایت مقصود ہے، عبادت گزار جس کا مقصد رکھتے ہیں اور یہ وہ منتہائے مطلوب ہے، اہل محبت جس کے حصول کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ پس زمین و آسمان کے رب کی رضا جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ ﴿ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴾ ” یہی بڑی کامیابی ہے۔“ کیونکہ ان کا ہر مطلوب و مقصود حاصل ہوگا۔ ان سے ہر خوف دور ہوگا۔ ان کے تمام معاملات خوبصورت اور خوشگوار ہوں گے۔۔۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ اپنے جود و کرم سے ہمیں بھی ان کی معیت نصیب فرمائے۔