الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
منافق مرد اور منافق عورتیں سب کا حال ایک (51) ہے، سبھی برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں، اور اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں، وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ بھی انہیں بھول گیا، بے شک منافقین ہی فاسق لوگ ہیں
﴿الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ﴾ ” منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں۔“ کیونکہ نفاق ان میں قدر مشترک ہے اس لئے وہ ایک دوسرے کے باہم دوست ہیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان اور منافقین کے درمیان موالات کا رشتہ منقطع ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے منافقین کا عمومی وصف بیان فرمایا جس سے ان کا چھوٹا اور بڑا کوئی بھی باہر نہیں۔ ﴿يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ ﴾ ” وہ بری بات کا حکم دیتے ہیں“ اور وہ ہے کفر، فسق اور معصیت ﴿وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ﴾ ” اور معروف سے روکتے ہیں“ معروف سے مراد ایمان، اخلاق فاضلہ، اعمال صالحہ اور آداب حسنہ ہیں۔ ﴿وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ﴾ ” اور بند رکھتے ہیں اپنے ہاتھوں کو“ صدقہ اور بھلائی کے راستوں سے پس اللہ تعالیٰ نے ان کو بخل کی صفت سے موصوف کیا ہے۔ ﴿نَسُوا اللَّـهَ﴾ ” وہ بھول گئے اللہ کو“ پس وہ بہت کم اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔ ﴿ فَنَسِيَهُمْ﴾ ” تو وہ بھی بھول گیا ان کو“ یعنی ان پر رحمت کرنے سے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو بھلائی کی توفیق عطا نہیں کرتا اور نہ ان کو جنت میں داخل کرے گا، بلکہ وہ ان کو جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں چھوڑ دے گا جہاں ان کو ہمیشہ رکھا جائے گا۔ ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ ” بے شک منافق ہی نافرمان ہیں“ اللہ تعالیٰ نے فسق کو منافقین میں محصور کردیا، کیونکہ ان کا فسق دیگر فساق کے فسق سے زیادہ بڑا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کو دیا جانے والا عذاب دوسروں کو دیئے جانے والے عذاب کی نسبت زیادہ بڑا ہے۔ نیز اہل ایمان جب ان کے درمیان رہ رہے تھے تو ان منافقین کے باعث ان کو آزمائش میں ڈالا گیا اور ان سے بچنے کی نہایت سختی سے تاکید کی گئی۔