سورة التوبہ - آیت 66

لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اب (جھوٹی) معذرت نہ پیش کرو، تم لوگ ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر ہوگئے ہو، اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو (ان کے تائب ہوجانے کے بعد) معاف کردیں گے، تو دوسرے گروہ کو، اس لیے کہ وہ مجرمین تھے، ضرور سزا دیں گے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ﴾ ” اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف بھی کردیں۔“ ان کی توبہ و استغفار اور ان کی ندامت کی وجہ سے ﴿نُعَذِّبْ طَائِفَةً ﴾ ” تاہم بعض کو ضرور ہی عذاب دیں گے“ ﴿بِأَنَّهُمْ﴾ ” کیونکہ وہ“ یعنی اس سبب سے کہ ”﴿كَانُوا مُجْرِمِينَ ﴾ ” وہ گناہگار تھے“ یعنی اپنے کفر و نفاق پر قائم ہیں۔ یہ آیات کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جو کوئی اپنا بھید چھپاتا ہے خاص طور پر وہ بھید جس میں اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف سازش’ اللہ تعالیٰ’ اس کی آیات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ استہزاء ہو تو اللہ تعالیٰ اس بھید کو کھول دیتا ہے’ اس شخص کو رسوا کرتا ہے اور اسے سخت سزا دیتا ہے اور جو کوئی کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت ثابتہ کے ساتھ کسی قسم کا استہزا کرتا ہے، یا ان کا تمسخر اڑاتا ہے، یا ان کو ناقص گردانتا ہے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استہزاء کرتا ہے یا آپ کو ناقص کہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر قسم کے گناہ کی توبہ قبول ہوجاتی ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔