إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
بے شک اموالِ صدقہ (46) فقیروں کے لیے اور مسکینوں کے لیے اور انہیں اکٹھا کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے ہیں جن کا دل جیتنا مقصود ہو، اور غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرانے کے لیے اور قرضداروں کا قرض چکانے کے لیے ہے، اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے اور مسافر کے لیے ہیں، یہ حکم اللہ کی جانب سے ہے اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑی حکمتوں والا ہے
پھر اللہ تعالیٰ نے صدقات واجبہ کی تقسیم کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ ﴾’’صدقات و خیرات“ یعنی زکوٰۃِ واجب۔۔۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مستحب صدقات ہر ایک شخص کو دیئے جاسکتے ہیں، ان صدقات کو خرچ کرنے کے لئے کسی کو مختص نہیں کیا گیا۔ جب کہ صدقات واجبہ صرف ان لوگوں پر خرچ کئے جائیں جن کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صدقات کے مصرف کو صرف انہی لوگوں میں محدود رکھا ہے۔ ان کی آٹھ اصناف ہیں۔ (١، ٢) فقراء و مساکین، اس مقام پر یہ دو الگ اقسام ہیں جن میں تفاوت ہے، فقیر مسکین سے زیادہ ضرورت مند ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان اصناف کے ذکر کی ابتداء ”فقیر“ سے کی ہے اور ابتداء کا طریقہ یہی ہے کہ پہلے سب سے اہم چیز کا، پھر اس سے کم تر مگر دوسروں سے اہم تر کا بیان ہوتا ہے۔ فقیر کی یہ تفسیر بیان کی گئی ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو یا جس سے کفایت ہوسکتی ہو اس کے پاس اس کے نصف سے بھی کم ہو۔ مسکین اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے پاس کفایت سے نصف یا اس سے کچھ زیادہ موجود ہو مگر اس کے پاس پوری کفایت موجود نہ ہو، کیونکہ اگر اس کے پاس پوری کفایت موجود ہو تو وہ غنی ہوتا۔ پس فقراء اور مساکین کو اتنی زکوٰۃ دی جائے جس سے ان کا فقر و فاقہ اور مسکنت زائل ہوجائے۔ (٣) وہ لوگ جو صدقات کی وصولی وغیرہ کے کام پر مامور ہوں اور یہ وہ لوگ ہیں جو صدقات کے ضمن میں کسی ذمہ داری میں مشغول ہوں، ان کی وصولی کرنے والے، صدقات کے مویشیوں کے چرانے والے، ان کے نقل و حمل کا انتظام کرنے والے اور صدقات کا حساب کتاب لکھنے والے سب ” عاملین“ کے زمرے میں آتے ہیں۔۔۔ لہٰذا ان کو ان کا کام کا معاوضہ صدقات میں سے دیا جائے اور یہ ان کے کام کی اجرت ہے۔ (٤) وہ لوگ جن کی تالیف قلب مطلوب ہو۔ ﴿مُؤَلَّفَة ُ قُلُوبِ ﴾ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی اپنی قوم میں اطاعت کی جاتی ہے، جس کے اسلام قبول کرنے کی امید ہو یا جس کے شرکا خوف ہو، یا جس کو عطا کرنے سے اس کی قوت ایمان میں اضافہ ہوتا ہو یا اس جیسے کسی اور شخص کے اسلام قبول کرنے کی توقع ہو یا کسی ایسے شخص سے صدقات وصول ہونے کی توقع ہو جو صدقات ادا نہ کرتا ہو۔ اس صورت میں ﴿وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ﴾ کو صدقات میں سے دیا جاسکتا ہے جس میں کوئی مصلحت اور ان کی تالیف قلب مطلوب ہو۔ (٥) گردنیں چھڑانے میں، اس سے مراد وہ غلام ہیں جنہوں نے اپنے آقاؤں سے مکاتبت کے ذریعے سے آزادی خرید رکھی ہو اور وہ غلامی سے اپنی گردن چھڑانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہوں۔ پس زکوٰۃ کی مد سے ان کی مدد کی جاسکتی ہے اور وہ مسلمان جو کفار کی قید میں ہیں ان کو آزاد کرانے کے لئے بھی زکوٰۃ کا مال خرچ کیا جاسکتا ہے، بلکہ یہ مسلمان قیدی بدرجہ اولیٰ اس مد کے مستحق ہیں اور مستقلاً کسی غلام کو آزاد کرنے پر خرچ کرنا بھی جائز ہے، کیونکہ یہ بھی (وفی الرقاب) کے زمرے میں آتے ہیں۔ (٦) قرض داروں کی مدد کرنے میں۔۔۔ قرض داروں کی دو قسمیں ہیں۔ (اول) وہ قرض دار جنہوں نے لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے قرض اٹھایا ہو۔ اس کی صورت یہ ہے کہ دو گروہوں کے درمیان کوئی فتنہ یا فساد پھیل جائے تو وہ آدمی ان دونوں کے درمیان پڑ کر ان کے مابین صلح کروا کر ان میں سے کسی ایک کی طرف سے یا سب کی طرف سے مالی تاوان ادا کر دے۔ اس قسم کے قرض دار پر زکوٰۃ کی مد میں سے خرچ کیا جاسکتا ہے، تاکہ اس کے لئے زیادہ نشاط انگیز اور اس کے عزم کے لئے زیادہ قوت کا باعث ہو۔ وہ اگرچہ مال دار بھی ہو، تب بھی اسے زکوٰۃ کی مد میں سے عطا کیا جاسکتا ہے۔ (ثانی) دوسری قسم کا قرض دار وہ ہے جس نے کسی ذاتی ضرورت کی بنا پر قرض لیا مگر وہ عسرت کی وجہ سے قرض واپس نہ کرسکا۔ تو اسے صدقات میں سے اتنا مال عطا کیا جائے جس سے اس کے ذمہ سے قرض ادا ہوجائے۔ (٧)اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے۔ یہ وہ مجاہدین ہیں جو رضا کارانہ جہاد میں شریک ہوتے ہیں جن کا نام باقاعدہ فوج میں درج نہیں۔ ان کو زکوٰۃ کی مد سے اتنا مال عطا کیا جاسکتا ہے جو جہاد میں اس کی سواری، اسلحہ اور اس کے اہل و عیال کی کفالت کے لئے کافی ہوتا کہ وہ اطمینان قلب کے ساتھ پوری طرح سے جہاد میں شریک ہو سکے۔ بہت سے فقہاء یہ کہتے ہیں کہ اگر روزی کمانے پر قدرت رکھنے والا شخص اپنے آپ کو طلب علم کے لئے وقف کر دے تو اسے بھی زکوٰۃ میں سے مال دیا جائے۔ کیونکہ حصول علم بھی جہاد سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے، نیز بعض فقہا کہتے ہیں کہ کسی فقیر کو فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ میں سے مال عطا کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ قول محل نظر ہے۔ [لیکن ان کی بنیاد سنن ابی داؤد وغیرہ کی ایک روایت ہے جس کی رو سے حج و عمرہ پر زکوٰۃ کی رقم صرف کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے لیکن اس میں عمرہ کے ذکر کو شاذ قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، اور اء الغلیل 3؍ 372) علاوہ ازیں صحابہ میں سے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم اور ائمہ میں سے امام احمد و امام اسحاق رحمتہ اللہ علیہم وغیرہ بھی اس کے قائل ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیے، راقم کی کتاب ” زکوٰۃ، عشر اور صدقتہ الفطر۔“ ص 103۔104مطبوعہ دار السلام (ص۔ ی)] (٨) مسافر،اور یہاں مسافر سے مراد وہ غریب الوطن ہے جو اپنے وطن سے دور پردیس میں منقطع ہو کر رہ گیا ہو۔ اسے زکوٰۃ کی مد میں سے اتنا مال عطا کیا جاسکتا ہے جو اسے اپنے وطن پہنچانے کے لئے کافی ہو۔ یہ آٹھ قسم کے لوگ ہیں صرف انہی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ﴿ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ﴾ ” اللہ کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کو فرض اور مقرر کیا ہے اور فریضہ زکوٰۃ اس کے علم اور اس کی حکمت کے تابع ہے۔ واضح رہے کہ صدقات کے یہ آٹھ مصارف دو امور کی طرف راجع ہیں۔ (1) وہ شخص جسے اس کی حاجت اور فائدے کے لئے زکوۃ دی جاتی ہے’ مثلاً فقیر اور مسکین وغیرہ۔ (2) وہ شخص جسے اس لئے زکوٰۃ دی جاتی ہے کہ مسلمانوں کو اس کی ضرورت و حاجت ہوتی ہے اور اسلام کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال داروں کے مال میں سے یہ حصہ عوام و خواص، اسلام اور مسلمانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے مقرر کیا ہے۔ مگر مال دار لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ صحیح معنوں میں شرعی طریقے سے ادا کریں، تو مسلمانوں میں کوئی فقیر نہ رہے اور اسی طرح زکوٰۃ سے اتنا مال جمع ہوسکتا ہے جس سے سرحدوں کی حفاظت، کفار کے ساتھ جہاد اور دیگر تمام دینی مصالح کا انتظام ہوسکتا ہے۔