فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ
پس آپ کو ان کا مال و دولت اور ان کی اولاد دھوکے (42) میں نہ رکھے، اللہ تو چاہتا ہے کہ انہٰں ان کے سبب دنیاوی زندگی میں عذاب دے، اور ان کی جانیں حالت کفر میں نکلیں
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان منافقین کا مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالے، کیونکہ یہ کوئی قابل رشک بات نہیں۔ مال اور اولاد کی ایک ” برکت“ ان پر یہ ہوئی کہ انہوں نے اس مال اور اولاد کو اپنے رب کی رضا پر ترجیح دی اور اس کی خاطر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا، فرمایا : ﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” اللہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا کی زندگی میں ان کو عذاب دے۔“ یہاں عذاب سے مراد وہ مشقت اور کوشش ہے جو اسے حاصل کرنے میں انہیں برداشت کرنی پڑتی ہے اور اس میں دل کی تنگی اور بدن کی مشقت ہے۔ اگر آپ اس مال کے اندر موجود ان کی لذات کا مقابلہ اس کی مشقتوں سے کریں تو ان لذتوں کی ان مشقتوں کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں اور ان لذات نے چونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل کردیا ہے اس لئے یہ ان کے لئے اس دنیا میں بھی وبال ہیں۔ ان کا سب سے بڑا وبال یہ ہے کہ ان کا دل انہی لذات میں مگن رہتا ہے اور ان کے ارادے ان لذات سے آگے نہیں بڑھتے، یہ لذات ان کی منتہائے مطلوب اور ان کی مرغوبات ہیں’ ان کے قلب میں آخرت کے لئے کوئی جگہ نہیں اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ یہ لوگ دنیا سے اس حالت میں جائیں ﴿وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ﴾ ” اور جب ان کی جان نکلے تو وہ کافر ہی ہوں۔ “ یعنی اس حالت میں ان کی جان نکلے کہ ان کا رویہ انکار حق ہو۔ تب اس عذاب سے بڑھ کر کون سا عذاب ہے جو دائمی بدبختی اور کبھی دور نہ ہونے والی حسرت کا موجب ہے؟