إِن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۖ وَإِن تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِن قَبْلُ وَيَتَوَلَّوا وَّهُمْ فَرِحُونَ
اگر آپ کو کوئی خوشی ملتی ہے تو یہ بات انہیں تکلیف (39) پہنچاتی ہے، اور اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنا معاملہ پہلے سے ٹھیک کر رکھا ہے، اور پیٹھ پھیر کر خوشیاں مناتے ہوئے چل دیتے ہیں
اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کے بارے میں یہ واضح کرتے ہوئے کہ وہی حقیقی دشمن اور اسلام کے خلاف بغض رکھنے والے ہیں۔۔۔ فرماتا ہے ﴿إِن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ﴾ ” اگر پہنچے آپ کو کوئی بھلائی“ مثلاً فتح و نصرت اور دشمن کے خلاف آپ کی کامیابی ﴿تَسُؤْهُمْ﴾ ” تو ان کو بری لگتی ہے۔“ یعنی ان کو غمزدہ کردیتی ہے ﴿وَإِن تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ ﴾ ” اور اگر آپ کو پہنچے کوئی مصیبت“ مثلاً آپ کے خلاف دشمن کی کامیابی ﴿يَقُولُوا﴾ ” تو کہتے ہیں۔“ آپ کے ساتھ نہ جانے کی وجہ سے سلامت رہنے کی بنا پر نہایت فخر سے کہتے ہیں : ﴿قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِن قَبْلُ ﴾ ہم نے اس سے پہلے اپنا بچاؤ کرلیا تھا اور ہم نے ایسا رویہ رکھا جس کی وجہ سے ہم اس مصیبت میں گرفتار ہونے سے بچ گئے ﴿وَيَتَوَلَّوا وَّهُمْ فَرِحُونَ﴾ ” اور پھر کر جائیں وہ خوشیاں کرتے ہوئے“ یعنی وہ آپ کی مصیبت اور آپ کے ساتھ اس میں عدم مشارکت پر خوش ہوتے ہیں۔