وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلَا تَفْتِنِّي ۚ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا ۗ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ
اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ مجھے اجازت (38) دے دیجئے، اور مجھے آزمائش میں نہ ڈالئے، تو آگاہ رہئے کہ وہ تو آزمائش میں پھنس گئے ہیں، اور بے شک جہنم کافروں کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئی ہے
اور ان منافقین میں کچھ وہ بھی تھے جو جہاد میں نہ جانے کی اجازت مانگتے تھے اور عجیب و غریب قسم کے عذر پیش کرتے تھے۔ کوئی یہ کہتا تھا ﴿ائْذَن لِّي﴾ ” مجھے (پیچھے رہنے کی) اجازت دیجیے۔“ ﴿ وَلَا تَفْتِنِّي﴾ ” اور مجھے (گھر سے نکلنے کے باعث) فتنے میں نہ ڈالئے۔“ کیونکہ جب میں بنی اصفر (رومیوں) کی عورتوں کو دیکھوں گا تو صبر نہیں کرسکوں گا۔ جیسا کہ جدبن قیس نے کہا تھا۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے اس کا مقصد محض ریا اور نفاق تھا اور وہ اپنی زبان سے ظاہر کرتا تھا کہ اس کا مقصد اچھا ہے اور جہاد میں نکلنے سے وہ فتنہ اور شر میں مبتلا ہوجائے گا اور اگر وہ جہاد کے لئے نہ جائے تو عافیت میں ہوگا اور فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے فرمایا ﴿ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا﴾ ” خبر دار، وہ تو گمراہی میں پڑ چکے“ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ قائل اپنے قصد میں سچا ہے، تب بھی پیچھے رہ جانے میں بہت بڑی مفسدت اور عظیم فتنہ متحقق ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی نیز کبیرہ گناہ کے ارتکاب اور اس کے بہت بڑے بوجھ کو اٹھانے کی جسارت، رہا جہاد کے لئے نکلنا تو جہاد میں نہ نکلنے کی نسبت بہت تھوڑے مفاسد ہیں اور وہ بھی محض متوہم ہیں۔ بایں ہمہ اس قائل کا مقصد پیچھے رہنے کے سوا کچھ بھی نہیں اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ ﴾ ” بے شک جہنم گھیر رہی ہے کافروں کو“ جہنم سے بھاگ کر ان کے لئے کوئی جائے پناہ اور کوئی مفر نہیں، جہنم سے ان کے لئے گلو خلاصی ہے نہ نجات۔