إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اگر تم لوگ رسول اللہ کی مدد نہیں کرو گے تو (کوئی فرق نہیں پڑتا) اللہ نے ان کی مدد اس وقت کی جب کافروں نے انہیں نکال دیا تھا اور وہ دو میں سے ایک تھے جب دونوں غار میں تھے، اور اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کیجئے، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، تو اللہ نے انہیں اپنی طرف سے تسکین دیا، اور ایسے لشکر کے ذریعہ انہیں قوت پہنچائی جسے تم لوگوں نے نہیں دیکھا، اور کافروں کی بات نیچی کر دکھائی، اور اللہ کی بات اوپر ہوئی، اور اللہ زبردست، بڑی حکمتوں والا ہے
اگر تم اللہ تعالیٰ کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ تم سے بے نیاز ہے تم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اس نے قلت زاد اور بے کسی کے حالات میں بھی آپ کی مدد فرمائی۔ ﴿إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ” جب اس کو کافروں نے نکال دیا۔“ جب کفار نے آپ کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا تھا، جب انہوں نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور اس مقصد کے حصول کے لئے بھرپور کوشش کی اور وہ اس کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ آخر انہوں نے آپ کو مکہ مکرمہ سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ ﴿ثَانِيَ اثْنَيْنِ﴾ ” وہ دو میں سے دوسرا تھا“ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق ﴿ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ﴾ ” جب وہ دونوں غار میں تھے“ یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے نکل کر مکہ سے نیچے کی طرف واقع غار ثور میں پناہ گزین ہوئے۔ دونوں اس وقت تک غار میں ٹھہرے رہے جب تک کہ ان کی تلاش کا معاملہ ٹھنڈ انہیں پڑگیا۔ دونوں اصحاب شدید حرج اور مشقت کی حالت میں مبتلا رہے۔ جب ان کے دشمن ان کی تلاش میں ہر طرف پھیل گئے تاکہ ان کو پکڑ کر قتل کردیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نصرت نازل فرمائی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ﴿إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ﴾ ” جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے۔“ یعنی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جب کہ وہ سخت غم زدہ اور قلق کا شکار تھے۔۔۔ فرمایا : ﴿ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا﴾ ” غم نہ کھا، اللہ ہمارے ساتھ ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد، نصرت اور تائید ہمارے ساتھ ہے۔ ﴿فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ﴾ ” پس اتاری اللہ نے اپنی طرف سے اس پر سکینت“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ثابت قدمی، طمانیت اور ایسا سکون نازل فرمایا جو دل کی مضبوطی کا باعث ہوتا ہے۔ اس لئے جب آپ کا ساتھی گھبرایا تو آپ نے اس کو پرسکون کرتے ہوئے فرمایا ” غم نہ کھا، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“ ﴿وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا﴾ ” اور اس کی مدد کو وہ فوجیں بھیجیں کہ تم نے نہیں دیکھیں“ اور وہ معزز فرشتے تھے جن کو اللہ نے آپ کا محافظ بنا دیا۔ ﴿وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ﴾ ” اور کافروں کی بات کو پست کردیا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے کفار کو ساقط اور بے یار و مددگار چھوڑ دیا، کیونکہ کفار سخت غضب ناک تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سخت غصہ تھا وہ سمجھتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گرفتار کر کے قتل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور وہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے، بلکہ وہ کچھ بھی حاصل نہ کرسکے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدافعت فرما کر آپ کو اپنی نصرت سے نوازا۔ یہی وہ مدد ہے جس کا اس مقام پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ مدد کی دو قسمیں ہیں۔ (١) جب مسلمان دشمن کو زک پہنچانے کے خواہشمند ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خواہش اور مقصد کو پورا کرتا ہے اور وہ اپنے دشمن پر غالب آجاتے ہیں۔ (٢) مدد کی دوسری قسم مستضعفین کی مدد ہے جن کو ان کا طاقتور دشمن نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دشمن کو آپ سے دور کر کے اور دشمن سے آپ کا دفاع کر کے آپ کی مدد فرمائی اور شاید مدد و نصرت کی یہ قسم سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول کی مدد کرنا، جب کفار نے دونوں کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا تھا۔۔۔ نصرت کی اسی نوع میں شمار ہوتا ہے۔ ﴿ وَكَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْيَا﴾ ” اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے کلمات قدر یہ اور کلمات دینیہ دیگر تمام کلمات پر غالب ہیں۔ اس مفہوم کی چند دیگر آیات یہ ہیں۔ ﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الروم :30؍47) ” اور اہل ایمان کی مدد کرنا ہم پر لازم ہے۔“ فرمایا : ﴿إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ﴾ (غافر :40؍51) ” ہم اپنے رسولوں کی اور ان کی جو ایمان لائے، دنیا کی زندگی میں اور جس روز گواہ (گواہی دینے کے لئے) کھڑے ہوں گے،ضرور مدد کریں گے۔“ ﴿وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ﴾ (الصافات :3؍173) ” اور بے شک ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا۔“ پس اللہ تعالیٰ کا دین واضح دلائل، حیرت انگیز آیات اور تائید کرنے والے براہین کے ذریعے سے تمام ادیان پر غالب ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ عَزِيزٌ ﴾ ” اور اللہ غالب ہے۔“ کوئی اس پر غالب آسکتا ہے، نہ کوئی بھاگ کر اس سے بچ سکتا ہے۔ ﴿حَكِيمٌ ﴾ ” وہ حکمت والا ہے۔“ تمام اشیاء کو ان کے مناسب مقام پر رکھتا ہے وہ کبھی کبھی اپنے گروہ کی مدد کو کسی دوسرے وقت تک موخر کردیتا ہے جس کا تقاضا حکمت الہیہ کرتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں جناب ابوبکر صدیق کی فضیلت میں ایک ایسی خصوصیت بیان کی گئی ہے جو اس امت کے کسی اور فرد میں نہیں اور وہ ہے یہ منقبت جلیلہ اور صحبت جمیلہ۔۔۔ اور تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت کریمہ سے یہی مراد ہے۔ بنا بریں جن لوگوں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحبت کا انکار کیا انہوں نے ظلم و تعدی اور کفر کا ارتکاب کیا، کیونکہ اس نے قرآن کا انکار کیا جو اس صحبت کی تصریح کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے سکینت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ مصیبت اور خوف کے اوقات میں جب دل پریشان ہوجاتے ہیں، تو سکینت اللہ تعالیٰ کی نعمت کاملہ ہے۔ یہ نعمت کاملہ بندہ مومن کو اس کی اپنے رب کی معرفت، اپنے رب کے سچے وعدے پر اعتماد، اپنے ایمان اور اپنی شجاعت کے مطابق عطا ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حزن کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں اور صدیقین کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ بایں ہمہ جب بندہ مومن پر یہ کیفیت نازل ہو تو بہتر یہ ہے کہ وہ اس کیفیت کو دور کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ حزن بندے کے دل کو کمزور اور اس کی عزیمت کو پراگندہ کردیتا ہے۔