يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ
اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو (32) تو بھاری ہو کر زمین سے لگے جاتے ہو، کیا تم آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے ہو، آخرت کے مقابلہ میں دنیاوی زندگی کا فائدہ بہت ہی تھوڑا ہے
واضح رہے کہ اس سورۃ کریمہ کا اکثر حصہ غزوہ تبوک میں نازل ہوا ہے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رومیوں کے مقابلے میں جنگ کے لئے لوگوں کو بلایا۔ اس وقت سخت گرمی کا موسم تھا، لوگوں کے پاس زاد راہ بہت کم تھا اور ان کے معاشی حالات عسرت کا شکار تھے۔ اس کی وجہ سے بعض مسلمانوں میں سستی آگئی تھی جو اللہ تعالیٰ کے عتاب کی موجب بنی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو جہاد کے لئے اٹھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” اے ایمان والو“! کیا تم ایمان کے تقاضوں اور یقین کے داعیوں کو نہیں جانتے؟ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں سبقت کی جائے، اس کی رضا کے حصول، اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور تمہارے دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد کی طرف سرعت سے بڑھا جائے۔ پس ﴿ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ﴾ ”تمہیں کیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں کوچ کرو، تو گرے جاتے ہو زمین پر“ یعنی تم سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹھ رہے ہو اور راحت و آرام کی طرف مائل ہو رہے ہو۔ ﴿أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ﴾ ”کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔“ یعنی تمہارا حال تو بس اس شخص جیسا ہے جو دنیا کی زندگی پر راضی ہے اور اسی کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے اور آخرت کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ گویا آخرت پر وہ ایمان ہی نہیں رکھتا۔ ﴿ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” پس نہیں ہے نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا“ جس کی طرف تم مائل ہو جس کو تم نے آخرت پر ترجیح دے رکھی ہے۔ ﴿ إِلَّا قَلِيلٌ ﴾ ” مگر بہت تھوڑا“ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل سے نہیں نوازا جس کے ذریعے سے تم تمام معاملات کو تولو کہ کون سا معاملہ ہے جو ترجیح دیئے جانے کا مستحق ہے؟ کیا ایسا نہیں کہ یہ دنیا۔۔۔ اول سے لے کر آخر تک۔۔۔ آخرت کے ساتھ اس کی کوئی نسبت ہی نہیں؟ اس دنیا میں انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے، یہ عمر اتنی نہیں کہ اس کو مقصد بنا لیا جائے اور اس کے ماوراء کوئی مقصد ہی نہ ہو اور انسان کی کوشش، اس کی جہد اور اس کے ارادے اس انتہائی مختصر زندگی سے آگے نہ بڑھتے ہوں جو تکدر سے لبریز اور خطرات سے بھرپور ہے۔ تب کس بنا پر تم نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دے دی جو تمام نعمتوں کی جامع ہے جس میں وہ سب کچھ ہوگا نفس جس کی خواہش کریں گے اور آنکھیں جس سے لذت حاصل کریں گی اور تم اس آخرت میں ہمیشہ رہو گے۔۔۔ اللہ کی قسم ! وہ شخص جس کے دل میں ایمان جاگزیں ہوگیا ہے، جو صائب رائے رکھتا ہے اور جو عقل مندوں میں شمار ہوتا ہے، کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دے گا۔