سورة التوبہ - آیت 34

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! بہت سے علماء اور گرجوں کے پجاری لوگوں کا مال ناجائز کھاتے (28) ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع (29) کرتے ہیں، اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں، تو آپ انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے اہل ایمان بندوں کو تحذیر ہے کہ وہ بہت سے احبار اور رہبان، یعنی اہل کتاب کے علماء اور عبادت گزاروں سے بچیں جو باطل یعنی ناحق طریقے سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، کیونکہ ان کے علم، ان کی عبادت اور ان کی پیشوائی کی وجہ سے لوگوں کے مال اور ان کے چندوں میں سے ان کے وظائف مقرر ہیں۔ یہ احبار و رہبان وظائف لیتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ ان کا اس طریقے سے وظائف لینا حرام اور ظلم ہے، کیونکہ لوگ ان پر اپنا مال اس لئے خرچ کرتے ہیں، تاکہ وہ راہ راست کی طرف ان کی راہنمائی کریں اور ناحق طریقے سے لوگوں کا مال ہتھیانے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ لوگ ان کو مال دے کر ایسا فتویٰ حاصل کرتے تھے یا ان سے ایسا فیصلہ کرواتے تھے جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق نہیں ہوتا تھا۔ ان احبار و رہبان کی ان دو حالتوں سے بچنا چاہئے : (١) ناحق لوگوں کا مال لینا۔ (٢) لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا۔ ﴿وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ ﴾ ” اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں۔“ یعنی ان کو روک رکھتے ہیں۔ ﴿وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ” اور ان کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے۔“ یعنی بھلائی کے راستوں میں خرچ نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں۔ یہ وہ جمع کرنا ہے جو حرام ہے، یعنی مال کو روک رکھا اور اسے وہاں خرچ نہ کرنا جہاں خرچ کرنا فرض ہے، مثلاً زکوۃ ادا نہ کرنا، بیویوں اور دیگر اقارب کو نقصانات واجبہ نہ دینا۔ ﴿فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ ” تو انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری دیجیے۔ “