وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اور اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے لوگوں کے سامنے حج کے بڑے دن میں اعلان (3) کیا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا مشرکوں سے اب کوئی تعلق نہیں رہا، پس اگر تم لوگ توبہ کرلوگے تو تمہارے لیے بہتر رہے گا، اور اگر تم نے اسلام سے روگردانی کی تو جان لو کہ تم اللہ کو کسی حال میں عاجز نہیں بنا سکتے ہو، اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے
یہ اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اپنے دین کو فتح مند اور اپنے کلمہ کو بلند کرے گا اور ان کے مشرک دشمنوں سے علیحدہ ہوجائے گا، جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ مکرمہ اور اللہ تعالیٰ کے محترم گھر سے نکال کر حجاز کے اس خطۂ ارضی سے جلاوطن کیا جس پر ان کا تسلط تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو فتح و نصرت سے نوازا حتیٰ کہ مکہ فتح ہوگیا۔ مشرکین مغلوب ہوئے اور ان علاقوں کا اقتدار اور غلبہ مسلمانوں کے ہاتھ آگیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اعلان کرنے والے کو حکم دیا ہے کہ وہ حج اکبر کے دن جو کہ قربانی اور جزیرۃ العرب کے مسلمانوں اور کفار کے اکٹھے ہونے کا دن ہے۔۔۔۔ اعلان کر دے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے برئ الذمہ ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں اب ان کے لئے کوئی عہد اور میثاق نہیں۔ وہ جہاں کہیں بھی ملیں گے ان کو قتل کیا جائے گا اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں اور یہ سن ۹ ہجری تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ حج کیا اور قربانی کے روز رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے برأت کا اعلان کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو توبہ کی ترغیب دی اور ان کو شرک پر جمے رہنے سے ڈرایا۔ ﴿فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّـهِ﴾ ” پس اگر تم توبہ کرلو، تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر نہ مانو، تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرگز نہ تھکا سکو گے۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ سے بھاگ نہیں سکتے، بلکہ تم اس کے قبضۂ قدرت میں ہو اور وہ اس بات پر قادر رہے کہ تم پر اپنے مومن بندوں کو مسلط کر دے۔ ﴿وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ ” اور کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو۔“ جو دنیا میں قتل، اسیری اور جلاوطنی کی صورت میں انہیں دیا جائے گا اور آخرت میں جہنم کی آگ کا، جو بہت برا ٹھکانا ہے۔