مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
نبی کے لیے مناسب نہ تھا کہ ان کے پاس قیدی ہوتے قبل اس کے کہ وہ زمین میں کافروں کا خوب قتل (56) کرلیتے تم لوگ دنیاوی فائدہ چاہتے تھے، اور اللہ تمہارے لیے آخرت کی بھلائی چاہتا تھا، اور اللہ زبردست، بڑی حکمتوں والا ہے
یہ غزوۂ بدر کے موقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان پر عتاب ہے جب انہوں نے مشرکین کو جنگی قیدی بنایا اور ان سے معاوضہ لینے کے لئے اپنے پاس رکھا۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان سے مالی معاوضہ لینے کی بجائے، ان کو قتل کرکے ان کی جڑ کاٹ دی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” نبی کے شایاں نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں یہاں تک کہ (کافروں کو قتل کرکے) زمین میں کثرت سے خون نہ بہادے۔‘‘ یعنی نبی کے لئے یہ بات ہرگز مناسب نہیں کہ جب وہ کفار کے ساتھ جنگ کرے جو اللہ تعالیٰ کی روشنی کو بجھانا اور اس کے دین کو مٹانا چاہتے ہیں اور وہ یہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ روئے زمین پر کوئی ایسا شخص باقی نہ رہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہو۔۔۔ تو محض فدیہ کی خاطر (کفار کو قتل کرنے کی بجائے) قیدی بنانا شروع کر دے۔ یہ فدیہ اس مصلحت کی نسبت سے بہت حقیر ہے جو ان کے قلع قمع اور ان کے شر کے ابطال کا تقاضا کرتی ہے۔ جب تک ان میں شر اور حملہ کرنے کی قوت موجود ہے اس وقت تک بہتر یہی ہے کہ ان کو (قتل کرنے کی بجائے) جنگی قیدی نہ بنایا جائے۔ جب خونریزی کے بعد کفار کا قلع قمع اور مشرکین کے شر کا سدباب ہوجائے اور ان کا معاملہ کمزور پڑجائے تب ان کو (میدان جنگ میں) قیدی بنانے اور ان کی جان بخشی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ تُرِيدُونَ﴾ ” تم چاہتے ہو“ یعنی تم ان کی جان بخشی کرکے اور اس کے عوض فدیہ لے کر ﴿عَرَضَ الدُّنْيَا ﴾ ” دنیاوی مال و متاع لینا“ یعنی تم کسی ایسی مصلحت کی خاطر ان کی جان بخشی نہیں کررہے جو دین کی طرف راجع ہو۔ ﴿ وَاللَّـهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ﴾ ”اور اللہ آخرت ( کی بھلائی) چاہتا ہے۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ دین کو عزت سے نواز کر، اپنے اولیاء کی مدد کرکے اور دیگر قوموں پر انہیں غلبہ بخش کر اہل ایمان کے لئے آخرت کی بھلائی چاہتا ہے۔ پس وہ انہیں انہی امور کا حکم دیتا ہے جو اس منزل مراد پر پہنچاتے ہیں۔ ﴿وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾ ” اور اللہ غالب، حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا مل غلبے کا مالک ہے۔ اگر وہ کسی لڑائی کے بغیر کفار پر فتح دینا چاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے، مگر وہ حکمت والا ہے، وہ تمہیں ایک دوسرے کے ذریعے سے آزماتا ہے۔