يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
اے میرے نبی ! آپ مومنوں کو کافروں سے جنگ پر اکسائیے (55) اگر تمہارے بیس صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے، اور اگر تمہارے سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے، اس لییے کہ وہ بے سمجھ لوگ ہیں (جذبہ جہاد کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے ہیں)
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ﴾ ” اے نبی ! مومنوں کو جہاد کی ترغیب دو۔‘‘ یعنی آپ انہیں ہر اس طریقے کے ذریعے سے قتال پر آمادہ کریں جس سے ان کے عزائم مضبوط ہوں اور ان کے ارادوں میں نشاط پیدا ہو۔ یعنی جہاد اور دشمن سے مقابلے کی ترغیب دی جائے اور جہاد سے باز رہنے کے انجام سے ڈرایا جائے۔ شجاعت اور صبر کے فضائل اور ان پر مرتب ہونے والی دین و دنیا کی بھلائی کا ذکر کیا جائے۔ بزدلی کے نقصانات بیان کئے جائیں اور یہ واضح کیا جائے کہ بزدلی ایک انتہائی رذیل اور ناقص خصلت ہے اور شجاعت کا اہل ایمان کی صفت ہونا دوسروں کی نسبت زیادہ اولیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْجُونَ ﴾ (النساء:4؍ 104) ” اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمہیں پہنچتی ہے جبکہ تم اللہ سے ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے۔‘‘ ﴿إِن يَكُن مِّنكُم ﴾ ” اے مومنو! اگر ہوں تم میں سے“ ﴿عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” بیس شخص ثابت قدم رہنے والے، تو غالب ہوں گے وہ دو سو پر اور اگر ہوں تم میں سے سو شخص، غالب ہوں گے ہزار کافروں پر۔‘‘ یعنی ایک مومن دس کافروں کا مقابلہ کرے گا اور اس کا سبب یہ ہے ﴿بِأَنَّهُمْ ﴾ ” کہ وہ“ یعنی کفار ﴿قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴾ ” ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔‘‘ یعنی انہیں کوئی علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کے لئے کیا ثواب تیار کر رکھا ہے۔ پس یہ کفار زمین میں اقتدار، تغلب اور اس میں فساد پھیلانے کے لئے لڑتے ہیں اور تم (اے مسلمانو !) اس جنگ کا مقصد سمجھتے ہو کہ یہ جنگ اعلائے کلمتہ اللہ، دین کے غلبہ، کتاب اللہ کی حفاظت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑی کامیابی کے حصول کے لئے ہے اور یہ تمام امور شجاعت، صبر و ثبات اور اقدام علی القتال کے اسباب ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اس حکم میں تخفیف کردی۔