وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ
اور اگر آپ کو کسی قوم کی جانب سے خیانت (48) کا ڈر ہوجائے، تو اس کا معاہدہ لوٹا کر معاملہ برابر کرلیجئے، بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے
یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور کسی قوم کے درمیان جنگ نہ کرنے کا عہد اور میثاق ہو اور آپ کو اس قوم کی طرف سے خیانت اور بدعہدی کا خدشہ ہو، یعنی ان کی طرف سے معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کے بغیر، ایسے قرائن و احوال ہوں جو عہد میں ان کی خیانت پر دلالت کرتے ہوں ﴿ فَانبِذْ إِلَيْهِمْ ﴾ ” تو انہی کی طرف پھینک دیں“ ان کا عہد، یعنی ان کی طرف پھینک دیں اور ان کو اطلاع دے دیں کہ آپ کے درمیان اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ﴿عَلَىٰ سَوَاءٍ ﴾ ” تاکہ تم اور وہ برابر ہوجاؤ“ یعنی معاہدہ ٹوٹنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم اور ان کا علم مساوی ہو، آپ کے لئے جائز نہیں کہ آپ ان کے ساتھ بدعہدی کریں یا کوئی ایسی کوشش کریں کہ موجبات عہد اس سے مانع ہوں جب تک کہ آپ ان کو اس کے بارے میں آگاہ نہ کردیں ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ ﴾ ” بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“ بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں سے سخت ناراض ہوتا ہے۔ اس لئے معاملے کا واضح ہونا نہایت ضروری ہے جو تمہیں خیانت سے بری کر دے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جب ان کی خیانت متحقق ہوجائے تو ان کی طرف معاہدہ پھینکنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ان کی طرف سے کوئی اخفا نہیں رہا، بلکہ ان کی بدعہدی معلوم ہوچکی ہے، علاوہ ازیں اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں نیز اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ ﴾ ” برابر“ اور یہاں ان کی بدعہدی سب کو معلوم ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر ان کی طرف سے کسی خیانت کا خدشہ نہ ہو’ یعنی ان کے اندر کوئی ایسی چیز نہ پائی جاتی ہو جو ان کی خیانت پر دلالت کرتی ہو، تو عہد کو ان کی طرف پھینکنا جائز نہیں، بلکہ اس معاہدے کو مدت مقررہ تک پورا کرنا واجب ہے۔