وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اور جب انہوں نے کہا، اے اللہ ! اگر یہ قرآن تیری برحق کتاب ہے، تو ہم پر آسمان سے پتھروں (26) کی بارش کردے، یا ہم کوئی اور دردناک عذاب بھیج دے
﴿وَإِذْ قَالُوا اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ ﴾” اور جب انہوں نے کہا، اے اللہ ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے“ جس کی طرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دیتے ہیں۔﴿فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴾ ” تو پھر برسا دے پتھر آسمان سے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب لا۔“ انہوں نے اپنے باطل پر ڈٹتے ہوئے اور آداب تخاطب سے جہالت کے ساتھ، پورے جزم سے یہ بات کہی تھی۔ اگر انہوں نے۔۔۔ جبکہ وہ اپنے باطل پر ملع سازی کر رہے تھے جو ان کے لئے یقین اور بصیرت کی موجب تھی۔۔۔ اپنے ساتھ مناظرہ کرنے والے اس شخص سے یہ کہا ہوتا جو اس بات کا مدعی ہے کہ حق اس کے ساتھ ہے ” اگر وہ چیز جس کا تم دعویٰ کرتے ہو کہ وہ حق ہے تو ہماری بھی راہنمائی کیجیے“ تو یہ چیز ان کے لئے زیادہ بہتر ہوتی اور ان کے ظلم و تعددی کی زیادہ اچھے طریقے سے پردہ پوشی کرسکتی تھی۔ پس جب سے انہوں نے کہا ﴿اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ ﴾ ان کی مجرد اسی بات سے معلوم ہوگیا کہ وہ انتہائی بے وقوف، بے عقل، جاہل اور ظالم ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیجنے میں جلدی کرتا تو ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ہٹا دیا، کیونکہ ان کے اندر رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اس لئے فرمایا