ذَٰلِكُمْ فَذُوقُوهُ وَأَنَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابَ النَّارِ
یہ دنیاوی سزا ہے جسے تم چکھو، اور کافروں کے لیے یقیناً جہنم کا عذاب ہے
﴿ذَٰلِكُمْ﴾یہ عذاب مذکور ﴿فَذُوقُوهُ﴾” پس چکھو تم اس کو“ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والو !(اس دنیا کے) فوری عذاب کا مزا چکھ لو ﴿وَأَنَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابَ النَّارِ﴾ ” اور کافروں کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔ “ اس قصہ میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانیاں ہیں جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جو کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر تشریف لائے ہیں، وہ حق ہے۔ (١) اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ ایک وعدہ کیا اور یہ وعدہ پورا کردیا۔ (٢) اس میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ﴾(آل عمران:3؍13)” تمہارے لئے ان دو گروہوں میں (جنگ بدر میں) جن کی مڈبھیڑ ہوئی ایک نشانی تھی ایک گروہ وہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا، وہ اپنی آنکھوں سے انہیں اپنے سے دوگنا مشاہدہ کر رہے تھے۔ “ (٣) جب اہل ایمان نے اللہ تعالیٰ کو مدد کے لئے پکارا تو اللہ تعالیٰ نے ان اسباب کے ذریعے سے ان کی دعا قبول فرمائی جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومن بندوں کے حال اور ان اسباب کے مقدر کرنے کے ساتھ بڑا اعتناء پایا جاتا ہے جن کے ذریعے سے اہل ایمان کے ایمان مضبوط اور ان میں ثابت قدمی پیدا ہو اور ان سے تمام ناپسندیدہ امور اور شیطانی وسوسے دور ہوں۔ (٤) یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر لطف و کرم ہے کہ وہ داخلی اور خارجی اسباب کے ذریعے سے اس کے لئے اطاعت کے راستوں کو آسان اور سہل کردیتا ہے۔