كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ
(جس طرح تقسیم غنائم کا معاملہ اللہ اور رسول کے حوالے کردینا ہی بہتر رہا، اگرچہ بعض مسلمانوں نے اس میں اختلاف کیا تھا) اسی طرح آپ کے رب نے آپ کو اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر آپ کے گھر سے نکالا (3) اگرچہ مسلمانوں کی ایک جماعت اسے بار گراں سمجھ رہی تھی
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم اور مبارک غزوہ کے ذکر سے قبل، اہل ایمان کی صفات بیان فرمائی ہیں جن کو انہیں اختیار کرنا چاہئے، کیونکہ جو کوئی ان صفات کو اختیار کرتا ہے، اس کے احوال میں استقامت آجاتی ہے اور اس کے اعمال درست ہوجاتے ہیں۔ جن میں سب سے بڑا عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ پس جیسے ان کا ایمان، سچا اور حقیقی ایمان ہے ان کے لئے جزا بھی حقیقی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بدر کے مقام پر مشرکین کے ساتھ معرکہ آرائی کرنے کے لئے اس حق کے ساتھ باہر نکالا، جس حق کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور اس معرکے کو اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھا تھا اگرچہ گھر سے نکلنا اور اپنے دشمن کے خلاف لڑنا کبھی ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آیا تھا۔ جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ معرکہ ہو کر رہے گا تو مومنوں میں سے ایک گروہ نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھگڑنا شروع کردیا، وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کو ناپسند کرتے تھے، گویا کہ ان کو، ان کے دیکھتے ہوئے، موت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ رویہ ان کو زیب نہیں دیتا تھا خاص طور پر جب ان پر واضح ہوگیا تھا کہ ان کا گھر سے نکلنا حق پر مبنی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور وہ اس پر راضی ہے۔ اس صورتحال میں یہ بحث کرنے کا مقام نہیں تھا بحث کرنے کا محل و مقام وہ ہوتا ہے جہاں حق میں اشتباہ اور معاملے میں التباس ہو، وہاں بحث کرنا مفید ہوتا ہے، لیکن جب حق واضح اور ظاہر ہوجائے تو اس کی اطاعت اور اس کے سامنے سرافگندہ ہونے کے سوا کوئی اور صورت نہیں رہتی۔ یہ تو تھی ان لوگوں کی بات، مگر اکثر اہل ایمان نے اس بارے میں کسی قسم کی بحث نہیں کی اور نہ انہوں نے دشمن کا مقابلہ کرنے کو ناپسند کیا۔ اس طرح وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا تھا انہوں نے جہاد کے لئے سرتسلیم خم کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی عطا فرمائی اور ان کو وہ اسباب مہیا فرمائے جن سے ان کے دل مطمئن ہوگئے جیسا کہ ان میں سے بعض اسباب کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا۔ ان کا مدینہ منورہ سے باہر نکلنے کا اصل مقصد تو اس تجارتی قافلے کا راستہ روکنا تھا جو ابوسفیان کی قیادت میں قریش کا سامان تجارت لے کر شام گیا تھا، یہ ایک بہت بڑاقافلہ تھا۔ جب مسلمانوں کو قریش کے قافلے کی واپسی کی اطلاع ملی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قافلے کو روکنے کے لئے مسلمانوں کو اکٹھا کیا چنانچہ آپ کے ساتھ تین سو سے کچھ زائد مسلمان مدینہ منورہ سے نکلے۔ ستر اونٹوں کے ساتھ، جن پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے اور ان پر انہوں نے اپنا سامان لادا ہوا تھا۔ قریش کو بھی مسلمانوں کے باہر نکلنے کی خبر پہنچ گئی، وہ اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لئے کثیر تعداد میں جنگی ساز و سامان کی پوری تیاری، گھوڑ سواروں اور پیادوں کے ساتھ مکہ سے نکلے۔ ان کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے ساتھ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان دونوں گروہوں، یعنی قافلہ یا فوج میں سے ایک کے مقابلے میں ان کو فتح سے نوازے گا۔ مسلمانوں نے اپنی تنگ دستی کی وجہ سے قافلے کے ملنے کو پسند کیا، نیز قافلہ والوں کے پاس طاقت بھی زیادہ نہیں تھی مگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے لئے اس امر کو پسند کیا جو اس سے اعلیٰ و افضل تھا جسے مسلمان پسند کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ کفار کی فوج کے مقابلے میں ظفر یاب ہوں جس کے اندر کفار کے بڑے سردار اور بہادرشہسوار لڑنے کے لئے آئے تھے۔