أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ۗ مَا بِصَاحِبِهِم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
کیا وہ غور و فکر نہیں کرتے ہیں کہ وہ آدمی جو ان کے ساتھ ہے مجنون (114) نہیں ہے، وہ تو محض صاف صاف ڈرانے والا ہے
﴿أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ۗ مَا بِصَاحِبِهِم﴾” کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی کو“ یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو﴿مِّن جِنَّةٍ﴾” کوئی جنون نہیں“ یعنی کیا انہوں نے غور و فکر نہیں کیا کہ ان کے ساتھی کا حال، جس کو یہ اچھی طرح جانتے ہیں، چھپا ہوا نہیں ہے۔ کیا وہ پاگل ہے؟ پس اس کے اخلاق و اطوار، اس کی سیرت، طریقے اور اس کے اوصاف کو دیکھیں اور اس کی دعوت میں غور وفکر کریں۔ وہ اس میں کامل ترین صفات، بہترین اخلاق اور ایسی عقل و رائے کے سوا کچھ نہیں پائیں گے جو تمام جہانوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ وہ بھلائی کے سوا کسی چیز کی دعوت نہیں دیتا اور برائی کے سوا کسی چیز سے نہیں روکتا۔ پس اے صاحبان عقل و دانش ! کیا اس شخص کو جنون لاحق ہے یا یہ شخص بہت بڑا ارادہ نما، کھلا خیر خواہ، مجدد کرم کا مالک اور رؤف و رحیم ہے؟ بنا بریں فرمایا : ﴿ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” وہ تو صرف ڈرانے والا ہے“ یعنی وہ تمام مخلوق کو اس چیز کی طرف بلاتا ہے جو انہیں عذاب سے نجات دے اور جس سے نہیں ثواب حاصل ہو۔