سورة الاعراف - آیت 180

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اللہ کے بہت ہی اچھے نام ہیں، پس تم لوگ اسے انہی ناموں کے ذریعہ پکارو (110) اور ان لوگوں سے برطرف ہوجاؤ جو اس کے ناموں کو بگاڑتے ہی (اس کے غلط معنی بیان کرتے ہیں) اور انہیں عنقریب ان کے کیے کی سزا دی جائے گی

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

رہا وہ شخص جو ان جوارح کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں استعمال کرتا ہے، جس کا قلب اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی محبت کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور وہ اللہ سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ پس ایسے ہی لوگ اہل جنت ہیں اور وہ اہل جنت کے اعمال سر انجام دیتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے جلال کی عظمت اور اس کے اوصاف کی وسعت کو بیان کرتی ہے، نیز یہ بیان کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام نام اسمائے حسنٰی ہیں، یعنی اس کا ہر نام اچھا ہے۔ اس کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام ایک عظیم صفت کمال پر دلالت کرتا ہے۔ اسی لئے ان اسماء کو اسمائے حسنیٰ کہا گیا ہے۔ اگر یہ اسماء صفات پر دلالت نہ کرتے بلکہ محض علم ہوتے تو یہ اسماء ” حسنیٰ“ نہ ہوتے اس طرح اگر یہ اسماء کسی ایسی صفت پر دلالت کرتے جو صفت کمال نہ ہوتی بلکہ اس کے برعکس صفت نقص یا صفت منقسم ہوتی یعنی بیک وقت مدح و قدح پر دلالت کرتے تب بھی یہ اسماء ” حسنیٰ“ نہ کہلا سکتے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ہر اسم پوری صفت پر دلالت کرتا ہے جس سے یہ اسم مشتق ہے اور وہ اس صفت کے تمام معانی کو شامل ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک (اَلعلیِم) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ایسے علم کا مالک ہے جو عام ہے اور تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے، پس زمین و آسمان میں ایک ذرہ بھی اس کے دائرہ علم سے باہر نہیں۔ اس کا اسم مبارک (اَلرَّحِیم) دلالت کرتا ہے کہ وہ عظیم اور بے پایاں رحمت کا مالک ہے جو ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ (اَلقَدِیر) دلالت کرتا ہے کہ وہ قدرت عامہ کا مالک ہے کوئی چیز بھی اس کی قدرت کو عاجز اور لاچار نہیں کرسکتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسماء کا کامل طور پر (حُسنیٰ) ہونا یہ ہے کہ اس کو ان اسماء حسنیٰ کے سوا کسی اور اسم سے نہ پکارا جائے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے﴿فَادْعُوهُ بِهَا﴾ ” پس اس کو انہی ناموں سے پکاور“ اور اس دعا میں دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ دونوں شامل ہیں۔ پس ہر مطلوب میں اللہ تعالیٰ کو اس کے اس اسم مبارک سے پکارا جائے جو اس مطلوب سے مناسبت رکھتا ہے۔ پس دعا مانگنے والا یوں دعا مانگے ” اے اللہ مجھے بخش دے مجھ پر رحم کر بے شک تو بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ “” اے توبہ قبول کرنے والے میری توبہ قبول کر“ ” اے رزق دینے والے مجھے رزق عطا کر“ اور ” اے لطف و کرم کے مالک مجھے اپنے لطف سے نواز۔۔۔“ وغیرہ۔ ﴿ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کج روی اختیار کرتے ہیں، عنقریب ان کو ان کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا“ یعنی اللہ تعالیٰ کی اسماء میں الحاد کی پاداش میں انہیں سخت سزا اور عذاب دیا جائے گا اور الحاد کی حقیقت یہ ہے کہ ان اسماء کو ان معانی سے ہٹا کر جن کے لئے ان کو وضع کیا یا ہے، دوسری طرف موڑنا،(اور اس کی مختلف صورتیں ہیں۔) (١) ان ناموں سے ایسی ہستیوں کو موسوم کرنا جو ان ناموں کی مستحق نہیں، مثلاً مشرکین کا اپنے معبودوں کو ان ناموں سے موسوم کرنا۔ (٢) ان اسماء کے اصل معانی و مراد کی نفی اور ان میں تحریف کر کے، ان کے کوئی اور معانی گھڑ لینا، جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہیں۔ (٣) ان اسماء سے دوسروں کو تشبہ دینا۔ پس واجب ہے کہ اسمائے حسنیٰ میں الحاد سے بچا جائے اور اسماء میں الحاد کرنے والوں سے دور رہا جائے۔ صحیح حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، آپ نے فرمایا :” اللہ تبارک و تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو ان کو یاد کرلیتا ہے وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ [صحیح البخاری، کتاب الشروط، باب مایجوزمن الاشتراط والثنیا فی الاقرار۔۔۔ الخ، ح 2736]